ایفل ٹاور: خوبصورتی اور انجینئرنگ کا صدیوں پرانا شاہکار
ایفل ٹاور، فرانس۔
لوہے سے بنے ایک مینار کا نام ہے جو فرانس کے شہر پیرس میں دریائے سین کے کنارے واقع ہے۔ اس کا نام اس کو ڈیزائن کرنے والے گستاف ایفل پر رکھا گیا ہے۔ پیرس کا یہ سب سے اونچا ٹاور دنیا میں سب سے زیادہ پہچانی جانے والی یادگار ہے اس کی بلندی 1063 فٹ / 324 میٹر ہے۔ اسے 1889ء میں مکمل کیا گیا۔ یہ جب سے بنا ہے اسے 200،000،000 (20 کروڑ) لوگ دیکھ چکے ہیں، اس لحاظ سے یہ دنیا کی ایک ایسی جگہ ہے جہاں سب سے زيادہ سیاح آچکے ہيں۔ اس کا وزن 7300 ٹن ہے۔
the Eiffel Tower, (1887)
دنیا بھر میں بہت سے مقام اور تفریحی جگہیں ہیں جنہیں دیکھنے والے حیرت زدہ رہ جاتے ہیں۔ کسی بھی ملک کی بلند و بالا اور خوب صورت عمارتیں اس ملک کی ثقافت اور تاریخ کا حصہ ہوتی ہیں۔ کہتے ہیں کہ اگر آپ کو کسی قوم کے بارے میں جاننا ہو تواس کی عمارتوں کو دیکھ لیں۔ دنیا کے کئی ممالک میں مختلف ادوار میں ایسی کئی یادگار عمارتیں تعمیر ہوئیں جو ان ممالک کی پہچان بن گئیں۔ دنیا ایسی خوب صورت، یادگار اور حیرت انگیز عمارات سے بھری پڑی ہے جو صدیوں سے ہر دور کی نسل کو مسحور اور حیران کرتی آئی ہیں۔ فرانس کے دارالحکومت پیرس میں واقع ایفل ٹاور کا شمار بھی ایسی ہی بلند وبالا اور خوب صورت عمارتوں میں ہوتا ہے۔
ایفل ٹاور لوہے سے بنے ایک مینار کا نام ہے جو فرانس کے شہر پیرس میں دریائے سین کے کنارے واقع ہے۔1889ءمیں ایفل ٹاور کی رونمائی انقلابِ فرانس کے ایک سو سالہ جشن کا حصہ تھی۔ اسے 100سالہ تقاریب کے موقع پر ہونے والی نمائش کے دروازے کے طور پر بنایا گیا تھا۔ اس مینار کو عالمی نمائش کے 20 سال بعد منہدم کیا جانا تھا،لیکن بعد ازاں یہ ارادہ منسوخ کر دیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب ایفل ٹاور تعمیر کیا جا رہا تھا، اس وقت پیرس کے 300 مصوروں اور دانشوروں نے اس کی تعمیر کے خلاف حکومت سے احتجاج کیا تھا۔ انہوں نے موقف اختیار کیا کہ اس دیوہیکل ٹاور کی تعمیر غیر ضروری ہے لیکن آج یہ ٹاور دنیا میں فرانس کی سب سے زیادہ پہچانی جانے والی یادگار ہے اور اس کا شمار دنیا کے مشہور ترین سیاحتی مقامات میں ہوتا ہے۔ ہر 7سال بعد ایفل ٹاور کو نئے سرے سے سجایا جاتا ہے، اسے رنگ و روغن کیا جاتا ہے، جس کے لیے کم و بیش 60 ٹن رنگ درکار ہوتا ہے۔
ایفل ٹاور کو 1889ءمیں مکمل ہونے کے 41برس تک دنیا کے بلند ترین مینار کا اعزاز حاصل رہا۔ 1930ء میں نیویارک، امریکہ میں تعمیر ہونے والی ”کرائسلر بلڈنگ“ نے ایفل ٹاور سے یہ اعزاز چھین لیا، تاہم اس دوڑ میں ایک اور دلچسپ موڑ اس وقت آیا،جب ایفل ٹاور کے اوپر براڈکاسٹنگ ایریل تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس تعمیر کے بعد ایفل ٹاور، کرائسلر بلڈنگ کو پیچھے چھوڑتے ہوئے پھر سے دنیا کی بلند ترین عمارت بن گئی۔ایفل ٹاور، کرائسلر بلڈنگ سے 5.2میٹر (17فٹ) بلند ہے۔ ایک سال بعد 1931ء میں نیویارک، امریکہ میں ایک اور بلند و بالا عمارت ”ایمپائر اسٹیٹ“ تعمیر ہوئی۔ 443 میٹر کے ساتھ ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ، ایفل ٹاور سے 19 میٹر بلند ہے۔ ہر چند کہ اب دنیا میں ایفل ٹاور سے زیادہ بلند و بالا اور فلک بوس عمارتیں تعمیر ہوچکی ہیں، تاہم خوبصورتی اور انفرادیت کے لحاظ سے ایفل ٹاور کا کوئی ثانی نہیں۔
ایفل ٹاور 324 میٹر یعنی 1,063فٹ بلند اور 10,100 ٹن وزنی ہے۔اس کی تعمیر میں لوہے اور اسٹیل کے 18,000 ٹکڑوں کا استعمال کیا گیا ہے جو مجموعی طور پر 25 لاکھ کیلوں کے ذریعے ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ اس کی بنیادوں میں 40 فٹ تک پتھر اور لوہا بھرا گیا اور 12ہزار لوہے کے شہتیر استعمال کئے گئے۔ یہ مینار چار شہتیروں پر کھڑا ہے جن میں سے ہر ایک 279 مربع فٹ رقبہ گھیرے ہوئے ہے۔ اس میں استعمال ہونے والے لوہے اور اسٹیل کا مجموعی وزن 7,300ٹن ہے۔ اس کے چاروں طرف ستونوں کے درمیان ایک محراب بنی ہوئی ہے جس کے تین پلیٹ فارم یا منزلیں ہیں۔ پہلا پلیٹ فارم 189فٹ، دوسرا 380 اور تیسرا سطح زمین سے 906فٹ بلند ہے۔ اس کی چوٹی پر موسمیاتی رسدگاہ اور ریڈیو ٹیلی ویژن کے اینٹینے نصب ہیں۔ایفل ٹاور کی تعمیر دو سال، دو ماہ اور پانچ دن میں مکمل ہوئی۔ سردیوں میں یہ ٹاور تقریباً 6انچ سکڑ جاتا ہے، جبکہ شدید ہواﺅں میں یہ دو سے تین ا نچ ہوا کے رُ خ میں جھول مارتا ہے۔ اس کا ڈیزائن فرانس کے نام ور انجینئراور آرکیٹیکٹ گستاف ایفل نے تیارکیا تھا جس کے نام پر اسے ” ایفل ٹاور“ پکارا جاتا ہے۔
ایفل ٹاور کے افتتاح کے 125برس پورے ہونے کے موقع پرمینار کی کشش میں اضافے کے لیے کئی اقدامات کیے گئے۔ان میں پلیٹ فارم کے فرش پر لگائے گئے موٹے لیکن شفاف شیشے کی وہ پلیٹیں ہیں جن سے سیاح اپنے پاﺅں کے نیچے زمین کا منظر واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ ٹاورکے چاروں کونوں میں چار بڑے بڑے گلاس فلور پینل لگائے گئے ہیں۔ایفل ٹاور، دنیا بھر میں سیاحوں کا پسندیدہ ترین مقام ہے۔ یہاں ہر سال 70لاکھ سے زیادہ سیاح گھومنے آتے ہیں۔ ایفل ٹاور کو اب تک 30کروڑ سے زائد سیاح دیکھ چکے ہیں۔
ایفل ٹاور کی سیاحت کے لیے ٹکٹ خریدنا پڑتا ہے۔وسط جولائی سے اختتامِ اگست تک یہاں سیاحوں کی آمد عروج پر ہوتی ہے اور ٹکٹ خریدنے کے لیے عموماً دوگھنٹے لائن میں انتظار کرنا پڑتا ہے جس وقت سیاحوں کی آمد عروج پر نہیں ہوتی، ان دنوں بھی، ہفتے کے اختتامی دو دنوں میں ٹکٹ حاصل کرنے کے لیے کم از کم آدھا گھنٹہ انتظارکرنا پڑتا ہے۔ آن لائن خریدی گئی ٹکٹ کے لیے بھی سیاحوں کو گھومنے کا وقت بتانا اور بتائے گئے وقت پر پہنچنا ہوتا ہے۔ اگر کوئی سیاح بتائے گئے وقت کے 30 منٹ کے اندر اندر نہ پہنچ پائے تو زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ اسے داخلے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ بہرحال ایفل ٹاور دنیا کے بہترین سیاحتی مقامات میں سے ایک ہے۔فرانس جانے والا کوئی بدقسمت ہی ایسا ہو گا جس نے ایفل ٹاور کی سیاحت نہ کی ہو۔
0 Comments