Urdu Tech Loop

Created By Muhammad Hammad

کیا ہم کائنات کے صرف پانچ فیصد حصے کو جانتے ہیں Do we know only five percent of the universe

کیا ہم کائنات کے صرف پانچ فیصد حصے کو جانتے ہیں؟

اکثر آپ نے سوشیل میڈیا میں سنسنی خیز مضامین دیکھے ہوں گے کہ ابھی ہم کائنات کا صرف چار یا پانچ فیصد سمجھ سکے ہیں باقی پچانوے فیصد کائنات کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ اس قسم کی اکثر تحریریں سنسنی پیدا کر کے تشہیر کرنے کے لئے ہوتی ہیں۔ یہ مسئلہ اتنی الجھن والا بھی نہیں ہے جتنا اسے بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ بہتر یہی ہے کہ بات کو صحیح تناظر میں سمجھا جائے۔
جب یہ کہا جاتا ہے کہ کائنات میں 68 فیصد ڈارک انرجی ہے تو پہلے اس کا مطلب سمجھیں۔ ابھی ہمیں یہی نہیں معلوم کہ ایسی کوئی انرجی ہے بھی۔ یہ ایک مفروضہ ہے کہ کائنات کے سپیس میں بذات خود کسی قسم کی انرجی ہے جو اسے مسلسل پھیلارہی ہے۔ یہ مفروضہ اس لئے بنایا گیا کیونکہ ہمیں نہیں معلوم کہ کائنات کے پھیلاؤ میں اسراع کیوں ہے۔ اگر ہم اس اسراع کی تشریح میں یہ مفروضہ بنائیں کہ کائنات کا پھیلاؤ بذات خود خلا کی انرجی کی وجہ سے ہو رہا ہے تو حسابی اعتبار سے یہ کائنات کی مکمل انرجی کا 68 فیصد ہوگا۔ لیکن یہ مفروضہ اس بات کا تقاضا نہیں کرتا کہ یہ جو انرجی ہے اس میں کسی قسم کا کوئی سٹرکچر، آرڈر یا ڈھانچہ ہو۔ یعنی مقدار کے اعتبار سے اگرچہ یہ 68 فیصد ہے، لیکن معلومات، پیچیدگی اور تفصیلات کے اعتبار سے اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ بہت ممکن ہے کہ ہم ڈارک انرجی کی حقیقت دریافت کر بھی لیں تو اس سے ہماری موجودہ معلومات میں کوئی 68 فیصد کا اضافہ نہیں ہونے والا، بلکہ مشکل سے ایک فیصد کا اضافہ ہو۔ البتہ اگر دریافت کے بعد ہمیں اس میں کوئی ترتیب نظر آئے تب دوسری بات ہے۔ فی الحال ترتیب تو دوسری بات ہے، ابھی نہیں پتہ کہ ایسی کسی انرجی کا وجود ہے بھی یا نہیں۔
اب ہم 27 فیصد ڈارک میٹر کا معاملہ لیتے ہیں۔ ڈارک میٹر کا مفروضہ اس لئے بنایا گیا کیونکہ ہمارے حساب سے گیلیکسی کے ستاروں کی مجموعی کشش ثقل جتنی ہونی چاہئے اس کے مقابلے میں یہ بہت زیادہ ہے۔ اس لئے یہ مفروضہ بنایا گیا ہے کہ قابل مشاہد مادہ یعنی وہ مادہ جس کی خصوصیات کو سٹینڈرڈ ماڈل میں بیان کیا گیا ہے کے علاوہ بھی مادہ ہے جس کی گریوٹی سے مادہ اثر انداز ہو رہا ہے۔ اور جب حساب لگایا گیا تو یہ عام مادے سے تقریبا پانچ گنا زیادہ نکلا۔ یعنی 68% ڈارک انرجی ماننے کی صورت میں ڈارک میٹر کوئی 27% بنتا ہے۔ ہمیں ڈارک میٹر کے بارے میں یہ پتہ ہے کہ یہ صرف کشش ثقل کے ساتھ تعامل کرتا ہے۔ ابھی ایسے کوئی تعاملات دریافت نہیں ہوسکے جن سے ڈارک میٹر کو ثابت کیا جاسکے۔ اس کے باوجود صرف کشش ثقل کے پٹرن سے ہم نے کائنات میں اور خاص طور پر گیلیکسیوں میں اس کی ترتیب معلوم کی ہوئی ہے۔ ہمیں کسی حد تک اندازہ ہے کہ اس کا زیادہ حصہ کہکشاں کے باہر ایک ہالے کی شک میں ہے، اس سے کسی قسم کی ریڈیشن نہیں ہوتی، یہ زیادہ کثیف نہیں ہوسکتے۔ مسئلہ یہ ہے کہ جس طرح عام مادے کے ذرات اور خصوصیات ہمیں معلوم ہے جسے سٹینڈرڈ ماڈل میں بیان کیا جاتا ہے اس طرح ہمیں ڈارک میٹر کے ذرات کے بارے میں نہیں معلوم۔
اس میٹر کے ذرات کو ہم ڈٹکٹ نہیں کر پائے اگرچہ اس کے کچھ امیدوار ذرات کی تھیوریاں بنائی جاچکی ہیں۔ یہاں پر مسئلہ تعاملات کا ہے کہ ہم یہ پتہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ دوسرے ذرات سے کس قسم کا تعامل کرتے ہیں جس سے انہیں ڈٹکٹ کیا جاسکے۔ فی الحال یہ لگ رہا ہے کہ یہ مادہ کم پیچیدہ ہے اور اگر یہ دریافت بھی ہوا تو پیچیدگی اور انفارمیشن کے اعتبار سے یہ بہت ہی سادہ قسم کا مادہ ہوگا۔ اس لئے اگر یہ دریافت بھی ہوا تو ممکن ہے کہ موجودہ کوانٹم فزکس کی معلومات میں مزید کچھ معمولی فیصد کا اضافہ ہو۔ یعنی مقدار کے اعتبار سے 95 فیصد کا جو ہوّا کھڑا کیا جا رہا ہے، انفارمیشن کے اعتبار سے یہ معمولی فیصد ہوسکتا۔ ہماری کائنات کی سمجھ میں انرجی اور میٹر کی مقدار سے زیادہ اس میں موجود ترتیب، انفارمیشن اور پیچیدگی زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ اس لئے صحیح تر بات یہ ہے کہ ہمیں نہیں معلوم ہے کہ ہم کائنات کی کتنی انفارمیشن حاصل کر سکے۔ اس سلسلے میں ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ ان مظاہر کے تعاملات کے نہ ہونے کی وجہ سے ہم پر ان کا اثر بھی اتنا ہی کم ہے۔
لیکن ایک خیال رہے کہ ابھی جس چیز کے بارے ہم نہیں جانتے اس کے بارے میں ہم زیادہ دعوی بھی نہیں کر سکتے۔ ایسا ہوسکتا ہے کہ کل کو نئی دریافتوں کی صورت میں ڈارک انرجی اور ڈارک میٹر کے بارے میں کچھ ایسی باتیں پتہ چلے جو کہ فزکس کی ہماری پوری سمجھ کو ہی پلٹ کر رکھ دے۔ لیکن یہ صرف قیاس آرائی ہے۔
عام طور پر سوشیل میڈیا میں اس قسم کے ہوا کھڑا کرنے کا مقصد زیادہ توجہ حاصل کرنا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ایسے نابغے بھی پائے جاتے ہیں جو سائنس کا استعمال کر کے سائنسی سوچ کی ہی مخالفت کرنے اور سائنسی دریافتوں کو ناقابل اعتبار بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی کچھ سماجی اور نفسیاتی وجوہات ہوتی ہیں جن کی وجہ سے کچھ افراد اور اقوام سائنس کو بدنامی کر کے مخصوص قسم کا حظ اٹھاتے ہیں۔

Post a Comment

0 Comments

Subscribe Us