Urdu Tech Loop

Created By Muhammad Hammad

ایک پر اسرار کائنات: بلیک ہول کی حقیقت کیا ہے Black Holes: Nature's Mysterious Endings

 

ایک پر اسرار کائنات: بلیک ہول کی حقیقت کیا ہے؟

بلیک ہول کا وجود آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت کے سب سے حیران کن نتائج میں سے ایک ہے۔ بلیک ہول ایک نقطے پر مشتمل ہوتا ہے مگر اس کا وزن سورج کے وزن سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ اس طور یہ قدرت کا عجیب ترین مظہر ہے۔ بعض بلیک ہول کا وزن تو سورج کے وزن سے لاکھوں، بلکہ کروڑوں، گنا زیادہ ہوتا ہے۔ اس نقطے کی کشش اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ کوئی چیز جو اس کے حلقہ اثر میں داخل ہو جائے، باہر نہیں نکل سکتی۔ یہاں تک کہ روشنی بھی، جس کا کوئی وزن نہیں ہوتا، بلیک ہول سے باہر نہیں جا سکتی۔ بلیک ہول کے قرب میں وقت مکمل طور پر رک جاتا ہے۔ وہ تمام قوانین فطرت، جن کا اطلاق کائنات کی ہر چیز پر ہوتا ہے، بلیک ہول ان سے مبرا ہیں۔ یہ کائنات کی عجیب ترین شے ایک بڑے ستارے کی موت کا آخری مرحلہ ہے۔ ایک چمکتا دمکتا ستارہ اپنی موت کے بعد ایک بلیک ہول بن جاتا ہے، ایک نقطے تک محدود۔
اس مضمون کا مقصد یہ سمجھنا ہے کہ بلیک ہول کس طرح وجود میں آتے ہیں؟ ان کو کس طرح دیکھا جا سکتا ہے؟ اور ان کا انجام کیا ہوتا ہے؟
بلیک ہول کو سمجھنے سے پہلے ہم ایک عام مشاہدے پر غور کرتے ہیں۔ جب کسی گیند کو ایک خاص رفتار کے ساتھ اوپر کی طرف پھینکا جاتا ہے تو وہ اوپر کی طرف حرکت کرتی ہے۔ اس کی رفتار کم ہوتی جاتی ہے۔ آخر کار ایک خاص اونچائی پر پہنچ کر ہوا میں رک جاتی ہے اور پھر واپس زمین پر گر جاتی ہے۔ اس کے پہلے آہستہ ہونے اور پھر نیچے گرنے کی وجہ کشش ثقل ہے۔ اگر گیند کو تیز رفتاری سے اوپر پھینکا جائے تو یہ تھوڑی اونچی جائے گی اور پھر زمین پر گر جائے گی۔
ایک دلچسپ سوال یہ ہے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ کسی گیند جیسی چیز کو اتنی تیز رفتاری سے پھینکا جائے کہ وہ اوپر، اوپر اور اوپر جاتی جائے اور کبھی واپس نہیں آئے؟ گیند پھر زمین کی کشش ثقل سے آزاد ہو گی۔ گیند یا کوئی اور چیز کے لیے زمین کی کشش ثقل سے آزاد ہونا ممکن ہے اگر اسے گیارہ کلومیٹر فی سیکنڈ یا اس سے زیادہ کی رفتار سے اوپر پھینکا جائے۔ اسے ’escape velocity‘ یا فرار کی رفتار کہا جاتا ہے۔ یہ رفتار گیند کے کمیت سے آزاد ہے لیکن اس کا انحصار زمین کی کمیت اور قطر کے تناسب پر ہے۔
کشش ثقل کی بیڑیوں کو توڑنے کے لیے درکار رفتار مختلف سیاروں پر مختلف ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر ، چاند، جہاں کشش ثقل کی قوت کمزور ہے، پر فرار کی رفتار تقریباً دو کلومیٹر فی سیکنڈ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چاند پر اپالو کی لینڈنگ کے دوران، قمری ماڈیول کو چاند سے نکل کر زمین پر واپس آنے کے لیے کسی بڑے راکٹ انجن کی ضرورت نہیں تھی۔ سورج پر فرار کی رفتار 620 کلومیٹر فی سیکنڈ ہے۔
اس بحث سے، یہ واضح ہے کہ، جن فلکی اجسام کی کشش ثقل زیادہ مضبوط ہوتی ہے، دہاں فرار کی رفتار زیادہ ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر ، نیوٹران ستارے پر ، فرار کی رفتار 100,000 سے 160,000 کلومیٹر فی سیکنڈ تک ہوتی ہے جو کہ نیوٹران ستارے کے کمیت اور قطر پر منحصر ہوتی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا ایسے اجسام کا وجود ممکن ہے جن میں فرار کی رفتار روشنی کی رفتار کے برابر ہو یا اس سے زیادہ ہو؟ آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت کے مطابق کوئی چیز روشنی کی رفتار سے زیادہ تیز حرکت نہیں کر سکتی۔ اس صورت میں کوئی چیز ایسے اجسام کی کشش ثقل سے آزاد نہیں ہو سکتی جن میں فرار کی رفتار روشنی کی رفتار کے برابر ہو۔ حساب لگایا جائے تو ایسا ستارہ جو سورج سے پانچ سو گنا بڑا ہو لیکن اس کی کثافت سورج کی کثافت کے برابر ہو، اس میں فرار کی رفتار روشنی کی رفتار کے برابر ہوگی۔ ایسے ستارے پر کسی چیز کے لیے کشش ثقل سے آزاد ہونا نا ممکن ہو گا۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایسا ستارہ روشنی کو بھی فرار نہیں ہونے دے گا؟ اگر ایسا ہو تو یہ ستارہ بلیک ہول ہو گا۔
مگر ایسا ممکن ہوتا اگر روشنی ذرات پر مشتمل ہوتی جن کا وزن ہوتا۔
لیکن روشنی چاہے لہر کی شکل میں ہو یا فوٹون جیسے ذرے کی شکل میں، اس کا وزن نہیں ہوتا۔ اس طور روشنی کشش ثقل کی قوت کو محسوس نہیں کرتی ہے اور اس سے قطع نظر کہ ستارے کی کشش ثقل کی کھینچ کتنی ہی مضبوط ہو۔ اس کے لیے بلیک ہول بننے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ روشنی ہمیشہ ستارے سے باہر جا سکتی ہے۔ اور اس طور ہم ستارے کو دیکھ سکتے ہیں۔
یہ نتائج ان قوانین کی بنیاد پر اخذ کیے گئے ہیں جو نیوٹن نے پیش کیے تھے۔
لیکن آئن سٹائن کے عمومی نظریہ اضافیت کی بنیاد پر ایسے اجسام کی موجودگی کی پیشین گوئی کرنا ممکن ہوا جو روشنی سمیت کسی چیز کو اپنی کشش سے آزاد نہیں کرتے۔ یہ بلیک ہول ایک نقطے پر مرکوز ہوتے ہیں، مگر سورج سے بعض اوقات لاکھوں گنا وزنی۔
ان کی پیشین گوئی 1916 میں آئن سٹائن کے عمومی نظریہ اضافیت کی بنیاد پر کی گئی تھی۔ آئن سٹائن ابتدا میں اپنے نظریے کے اس حیرت انگیز نتیجے کو قبول کرنے سے گریزاں تھے۔ ’بلیک ہول‘ کی اصطلاح امریکی ماہر طبیعیات جان وہیلر نے کئی سال بعد 1967 میں متعارف کروائی۔ پہلا بلیک ہول 1971 میں دیکھا گیا تھا۔ تب سے اب تک بڑی تعداد میں فلکی اشیاء کی شناخت بلیک ہولز کے طور پر کی گئی ہے۔ کائنات میں بلیک ہولز کی تعداد کھربوں میں ہے۔ ہماری اپنی کہکشاں، ملکی وے میں، تقریباً ایک ارب بلیک ہولز ہیں۔ زمین کے قریب ترین بلیک ہول کا نام Cygnus X۔ 1 ہے اور یہ ہمارے سیاروں کے نظام سے تقریباً چھ ہزار نوری سال کے فاصلے پر ہے۔ ہماری اپنی سمیت تقریباً تمام کہکشاؤں کے مرکز میں ایک بہت بڑا بلیک ہول موجود ہوتا ہے۔
بلیک ہول کی تصویر ایک نقطہ کی طرح ہے جس میں بہت بڑا مادہ مرتکز ہے۔ بلیک ہول کے گرد کرہ کی شکل میں ایک ریجن ایسا ہے، جس میں اگر کوئی چیز داخل ہو جائے، تو وہ واپس باہر نہیں جا سکتی۔ یہاں تک کہ بے وزن فوٹون بھی۔ اس کرہ کی سطح کو event horizon کہتے ہیں۔ یہ افق کوئی حقیقی سطح نہیں ہے، یہ ایک مصنوعی سطح ہے جو نقطے پر مرکوز ستارے کو گھیرے ہوئے ہے اور بلیک ہول کی حد کی نمائندگی کرتی ہے۔ کشش ثقل کی قوت اس سطح کے بالکل باہر تو محدود ہے لیکن یہ اس سطح پر لامحدود ہے۔
یہ پیشین گوئی حیرت انگیز ہے کیونکہ فزکس کے قوانین جو کائنات کی دیگر تمام اشیاء پر لاگو ہوتے ہیں اس نقطہ نما بلیک ہول پر لاگو ہونے میں ناکام رہتے ہیں۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں کثافت لامحدود ہے، جگہ لامحدود طور پر خمیدہ ہے، اور وقت رک جاتا ہے۔
بلیک ہول کی تشکیل کو کیسے سمجھیں؟
بلیک ہول ایک بڑے چمکتے دمکتے ستارے کی اخری منزل ہے۔ ایک ستارہ اپنا سفر ہائیڈروجن گیس سے شروع کرتا ہے۔ فیوژن پراسس کے نتیجے میں ہائیڈروجن ایٹم ہیلیم گیس میں تبدیل ہوتے ہیں۔ اس پراسس میں بہت توانائی حاصل ہوتی ہے۔ یہ توانائی ستاروں کی روشنی اور حرارت کا سبب ہے۔ جب ہائیڈروجن گیس خاتمے کے نزدیک پہنچتی ہے تو ستارے کے اندر توانائی پیدا ہونا بند ہو جاتی ہے اور ستارہ اپنے وزن کے بوجھ تلے collapse کرنا شروع کر دیتا ہے۔
ستارے کی زندگی کے آخری مرحلے میں، کور میں کمپریشن فورس اتنی مضبوط ہوتی ہے کہ ایٹم کے اندر موجود الیکٹران نیوکلئس میں ضم ہو جاتے ہیں۔ نیوکلئس کے اندر، یہ الیکٹران اور پروٹون ایک ساتھ مل کر نیوٹران بناتے ہیں۔ اب ایٹم اپنا وجود کھو دیتے ہیں۔ ستارہ اب صرف نیوٹران پر مشتمل ہوتا ہے۔ اگر ستارے کا وزن ایک حد سے زیادہ ہو، تو کشش ثقل کی طاقت اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ کمپریشن نہیں رکتی، اور تمام مادہ ایک نقطے پر مرکوز ہو جاتا ہے۔ کشش ثقل کی قوت لامحدود ہو جاتی ہے اور کچھ بھی اس نقطے سے باہر نہیں جا سکتا۔ روشنی بھی نہیں! ایک شاندار ستارہ بلیک ہول میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم کیسے سمجھیں کہ روشنی بلیک ہول سے باہر نہیں آ سکتی؟
ہماری عام سوچ کے مطابق اگر کسی خاص رنگ، مثلاً اگر نیلے رنگ کا سگنل زمین سے فضا میں بھیجا جائے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ اس رنگ میں کوئی تبدیلی آئے۔ زمین سے بھیجی گئی نیلی رنگ کی روشنی فضا میں بھی نیلی رہنی چاہیے۔ ہم تصور نہیں کر سکتے کہ روشنی کے رنگ پر زمین کی کشش ثقل اثر انداز ہو سکتی ہے۔
آئن سٹائن کے عمومی نظریہ اضافیت کا ایک حیرت انگیز نتیجہ یہ تھا کہ زمان و مکاں کی خمیدگی کی بدولت یہ تصور صحیح نہیں رہتا اور زمین سے بھیجی گئی نیلی روشنی سرخی مائل ہوتی نظر آئے گی۔
لیکن یہ کیسے ممکن ہے؟ اس بات کو کس طرح سمجھا جائے؟
جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے، زمین کے قریب وقت دور کی نسبت آہستہ چلتا ہے۔ دلیل کی خاطر، ہم فرض کرتے ہیں کہ زمین کی سطح پر ایک سیکنڈ عمارت کی چوٹی کے سیکنڈ کے نصف کے برابر ہے۔ حالانکہ یہ فرق تو بہت ہی معمولی ہے۔ نیز فرض کریں کہ زمین کی سطح سے ایک سگنل اوپر کی طرف بھیجا جاتا ہے جس کی فریکوئنسی 10 سائیکلز فی سیکنڈ ہے، یعنی ایک سیکنڈ میں لہر کے دس اتار چڑھاؤ گزرتے ہیں۔ مگر عمارت کی چوٹی پر ایک سیکنڈ زمین کی سطح پر نصف سیکنڈ کے برابر ہے۔ اس طور عمارت کی چوٹی پر ایک سیکنڈ میں صرف 5 اتار چڑھاؤ موصول ہوں گے۔ یہ سگنل 5 سائیکز فی سیکنڈ کی فریکوئنسی کے برابر ہو گا۔ اس طور ہم دیکھتے ہیں کہ زمین کی سطح سے عمارت کی چوٹی تک جاتے ہوئے سگنل کی فریکوئنسی کم ہو گئی۔ اس مشاہدے کو gravitational red shift کا نام دیا جاتا ہے۔
زمین پر فریکوئنسی کا فرق بہت معمولی ہوتا ہے۔ نیلی روشنی کے لیے، زمین پر فریکوئنسی شفٹ لہر کے کھربویں حصے سے بھی کم ہے۔ لیکن اس فرق کو دیکھنا ممکن ہو سکا۔ یہ تجربات آئن سٹائن کے نظرۂ اضافیت کے صحیح ہونے کی دلیل فراہم کرتے ہیں۔
اب یہ سمجھنا آسان ہے کہ روشنی کا کوئی سگنل بلیک ہول سے باہر نہیں جا سکے گا۔
بلیک ہول کی لامحدود کشش ثقل کا مطلب یہ ہے کہ وقت وہیں رک جاتا ہے۔ لہٰذا، بلیک ہول کے باہر روشنی کے سگنل کی فریکوئنسی صفر ہو جائے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی بلیک ہول سے کسی بھی رنگ کی روشنی کا سگنل بھیجا جائے تو اسے بلیک ہول کے باہر کسی مبصر کو نظر نہیں آئے گا۔ اس طور روشنی کبھی بھی بلیک ہول سے باہر نہیں نکل سکتی۔ ایک باہر والا کبھی بھی event horizon کے اندر نہیں جھانک سکتا۔
یہ بات غور طلب ہے کہ نیوٹن کی دریافت کردہ قوانین میں بلیک ہول کی گنجائش نہیں۔ بلیک ہول کو سمجھنا اور پھر ان کا مشاہدہ کرنا آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت کی بدولت ممکن ہو سکا۔
اب میں بلیک ہول سے متعلق چند سوالات کا جواب دینے کی کوشش کرتا ہوں جو ذہن میں آتے ہیں۔
جب مادہ بلیک ہول میں گرتا ہے تو کیا ہوتا ہے؟
یہ سارا مادہ نقطے پر مرکوز بلیک ہول کھینچ لیتا ہے۔ نتیجہ یہ کہ بلیک ہول کا event horizon زیادہ بڑا ہوتا جاتا ہے۔ بلیک ہول کے افق پر کھینچنے کی لامحدود طاقت کے باوجود، بلیک ہول ویکیوم کلینر کی طرح ہر چیز کو نہیں چوستے۔ مثال کے طور پر اگر سورج ایک بلیک ہول ہوتا تو تمام سیارے پہلے کی طرح سورج کے گرد گھومتے رہتے، سوائے اس کے کہ زمین سرد اور تاریک ہوتی۔
ایک دلچسپ سوال یہ ہے کہ اگر کوئی بلیک ہول میں چھلانگ لگائے تو کیا ہو گا؟
بلیک ہول کے قریب کشش ثقل بہت مضبوط ہے۔ event horizon کے قریب ایک سیدھی پوزیشن میں ایک شخص جسم کے مختلف حصوں پر ایک بہت ہی مختلف، لیکن انتہائی مضبوط کشش ثقل محسوس کرے گا۔ پاؤں پر کشش ثقل کی کھینچ سر کی کشش ثقل سے کہیں زیادہ ہوگی۔ نتیجتاً، event horizon تک پہنچنے سے پہلے ہی وہ شخص ذرات کے ایک لمبے، پتلے پٹے میں پھیل جائے گا، ایک خوفناک انجام جسے ”spaghettification“ کہا جاتا ہے۔
اگر بلیک ہول کے اس پاس کوئی اجسام فلکی موجود نہ ہوں، تو کوئی روشنی نہیں ہوتی۔ تاہم، اگر supernova مرحلے کے دوران کوئی گیس یا دھول پیدا ہوتی ہے، تو یہ مواد بلیک ہول اپنی طرف کھینچ لے گا۔ اس عمل کے دوران، گیس اور دھول کے گرم ہونے کی وجہ سے روشنی پھیل جاتی ہے بلیک ہول اس عمل میں زیادہ بھاری ہو جاتا ہے۔
بہت بڑے بلیک ہولز کواسار (quasars) پیدا کرنے کے لیے جانے جاتے ہیں جو کہ ریڈیو لہروں کے اخراج کا انتہائی روشن ذریعہ ہیں۔ ریڈیو لہر بالکل روشنی کی طرح ہوتی ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ طول موجwavelength) (کے ساتھ جو آنکھ سے نظر نہیں آتی۔ کواسارز اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب بڑے پیمانے پر مواد بلیک ہول میں گرتا ہے۔ اس دوران، یہ مواد بے حد طاقتور کشش ثقل کی موجودگی میں اپس میں رگڑ کھاتا ہے، اس طور گرم ہو جاتا ہے اور روشنی پیدا کرتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ بلیک ہول کے ارد گرد ایک ڈسک کی شکل میں ایک روشن حلقہ بن جاتا ہے ، یہ روشن حلقہ مداری حرکت میں پھیلے ہوئے مواد سے بنتا ہے۔ بعض اوقات یہ چمک پوری کہکشاں سے زیادہ روشن ہو سکتی ہے۔
دلچسپی کا سوال یہ ہے کہ: بلیک ہول کا سائز کیا ہے؟
جہاں تک کمیت کا تعلق ہے، یہ تمام مقدار ایک نقطہ میں مرتکز ہوتی ہے۔ تاہم، ایک بلیک ہول ایک کرہ کی مانند ہے جس کی سطح event horizon پر ہوتی ہے۔ اس کرے کے اندر کوئی بھی چیز مرکزی نقطے میں جذب ہو جاتی ہے۔ بلیک ہول کا سائز اس بات پر منحصر ہے کہ اس کی کمیت کتنی ہے۔ سورج کے سائز سے 5 گنا زیادہ بڑے ستارے سے بننے والا بلیک ہول کا قطر تقریباً آٹھ کلومیٹر کا ہو گا۔ عام طور پر ہماری کہکشاں میں پائے جانے والے بلیک ہولز کی کمیت سورج کی کمیت سے دس سے سو گنا زیادہ ہوتی ہے۔ تاہم، بلیک ہولز کی کمیت اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔ مثال کے طور پر ، ملکی وے (milky way) کہکشاں کے مرکز میں موجود بلیک ہول کے کمیت سورج سے تقریباً چالیس لاکھ گنا زیادہ ہے۔
ایک اہم سوال یہ ہے کہ بلیک ہول کو کیسے دیکھا جائے؟
اصولی طور پر ، کوئی بھی چیز، حتیٰ کہ روشنی بھی، بلیک ہول سے نہیں نکل سکتی۔ اس سے بلیک ہول کو براہ راست دیکھنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ تاہم، دیگر اشیاء پر بلیک ہولز کی کشش ثقل کے اثرات کا مشاہدہ کرنے سے بالواسطہ طور پر ان کی موجودگی کا اندازہ لگانا ممکن بناتا ہے۔
بلیک ہول کا بالواسطہ ثبوت کسی پوشیدہ چیز کے گرد چکر لگانے والے ستاروں کو دیکھ کر بھی ملتا ہے۔ مثال کے طور پر ، ملکی وے کہکشاں کے مرکز میں موجود ایک بہت بڑے بلیک ہول کا اندازہ پڑوسی ستاروں کی حرکت سے لگایا گیا تھا۔
بلیک ہول کے بالواسطہ مشاہدے کا ایک اور طریقہ کواسار (quasar) کے ذریعے ہے۔ جیسا کہ اوپر بحث کی گئی ہے، ایک کواسار، ایک لحاظ سے، بلیک ہول کا دکھائی دینے والا چہرہ ہے۔ تمام بلیک ہولز کواسار نہیں بناتے، صرف بہت بڑے بلیک ہولز جو سورج کی کمیت سے لاکھوں یا کروڑوں گنا بڑے ہوتے ہیں کواسار بناتے ہیں۔ کواسار کی زندگی عام طور پر مختصر ہوتی ہے۔ وہ میزبان کہکشاں سے زیادہ روشن ہوتے ہیں اور اس وقت تک موجود رہتے ہیں جب تک گرنے والا مواد بلیک ہول میں داخل نہیں ہو جاتا۔ اب تک دس لاکھ سے زیادہ کواسار ملے ہیں، جو کائنات میں بکھرے ہوئے ہیں۔ قریب ترین کواسار تقریباً چھ سو ملین نوری سال دور پایا گیا ہے۔ تاہم، تیرہ بلین نوری سال کے فاصلے پربھی کواسار پائے گئے ہیں۔
بلیک ہول کی موجودگی ثابت کرنے کے لیے ایک طریقہ کشش ثقل کی لہر، یعنی gravitational wave detection کے ذریعے ممکن ہے۔ جب دو بلیک ہولز ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں تو شدید کشش ثقل انہیں ایک دوسرے کی طرف کھینچتی ہے۔ یہ اسپیس ٹائم کے تانے بانے کو ہلاتا ہے جو ان کے ارد گرد زمان و مکاں کی لہریں پیدا کرتا ہے۔ یہ لہریں انتہائی کمزور لیکن قابل پیمائش ہیں۔ بلیک ہول کے انضمام کے کئی واقعات اب تک ریکارڈ کیے جا چکے ہیں۔
اب ایک آخری سوال! کیا کوئی ایسا وقت بھی آ سکتا ہے جب بلیک ہول توانائی میں تحلیل ہو کر اپنا وجود کھو بیٹھیں؟
بلیک ہولز کے بارے میں ایک عام تاثر یہ تھا کہ، کائنات کے یہ عجیب و غریب شاہکار ہمیشہ موجود رہیں گے۔ لیکن 1974 میں ایک برطانوی سائنسدان، سٹیفن ہاکنگ نے یہ حیران کن نتیجہ اخذ کیا کہ کوانٹم مکینکس کی کچھ خصوصیات ایسی ہیں جن کی وجہ سے وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ بلیک ہولز مکمل طور پر سیاہ نہیں ہوتے۔ وہ آہستہ آہستہ اپنی توانائی سے تہی دامن ہوتے رہتے ہیں اور بالآخر اپنا وجود ختم کرتے ہوئے کائنات میں تحلیل ہو جائیں گے۔
اس حیران کن انکشاف نے سٹیفن ہاکنگ کو راتوں رات دنیا کے عظیم ترین سائنسدانوں کی صف میں لا کھڑا کیا۔ اس ناقابل یقین نتیجے کو کس طرح سمجھا جائے؟
اس نتیجے پر پہنچنے کی تفصیل بہت پیچیدہ ہے۔ تاہم، ایک سادہ تصویر، جو اگرچہ مکمل طور پر درست نہیں، بلیک ہول کی ممکنہ موت کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔
میں نے ایک سابقہ مضمون میں بتایا تھا کہ خلا ایک لامحدود توانائی کا سمندر ہے، جس میں ذرات اور مخالف ذرات کے جوڑے نمودار ہوتے ہیں اور پھر، اس سے پہلے کہ ہم ان کو دیکھ پائیں، ایک دوسرے میں ضم ہو کر واپس توانائی میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔
یہ سلسلہ event horizon کے باہر بھی جاری رہتا ہے۔ لیکن یہاں کشش ثقل کی قوت اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ اس بات کا امکان موجود ہوتا ہے کہ جوڑے کے ذرات میں سے ایک اپنے ساتھی کے ہاتھوں فنا ہونے سے پہلے event horizon کے اندر داخل ہوجاتا ہے۔ یہ ذرہ تو بلیک ہول کی لامحدود کھینچنے کی قوت کے باعث مرکز میں جذب ہو جاتا ہے۔ تاہم، باہر رہ جانے والا ساتھی ذرہ ایک خاص مقدار میں توانائی لے کر بلیک ہول کی پہنچ سے باہر ہو جاتا ہے۔ نتیجہ یہ کہ ہمیں محسوس ہو گا جیسے بلیک ہول نے تابکاری خارج کی ہے۔ اس تابکاری کو Hawking radiation کا نام دیا جاتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ یہ توانائی کہاں سے آتی ہے؟
بلیک ہول کے ارد گرد توانائی کا منبع خود بلیک ہول ہے۔ جس طرح زمین کے قریب کسی چیز میں کشش ثقل کی توانائی موجود ہوتی ہے۔ اسی طرح، کھوئی ہوئی توانائی بلیک ہول سے آتی ہے اور بلیک ہول کی کمیت آئن سٹائن کے تعلق E=mc^ 2، جس کے مطابق توانائی کمیت کے مساوی ہوتی ہے، کے مطابق کم ہوتی جاتی ہے۔ پھر وہ مقام آ سکتا ہے کہ پورا بلیک ہول توانائی میں تبدیل ہو کر اپنا وجود کھو دیتا ہے۔
نتیجتاً یہ ہو سکتا ہے کہ بلیک ہول آہستہ آہستہ اپنی توانائی سے تہی دامن ہوتا رہے اور بالآخر اپنا وجود کھوتے ہوئے کائنات میں تحلیل ہو جائے۔
ایک بلیک ہول کو تحلیل ہونے میں کتنا وقت لگے گا؟

اس کا تخمینہ ہماری کائنات کی کل زندگی سے کھربوں سال زیادہ ہے۔ لہٰذا بلیک ہول کی تحلیل کا مشاہدہ کرنے کے لئے ہم میں سے کوئی بھی موجود نہ ہو گا۔

Post a Comment

0 Comments

Latest Posts

Subscribe Us