آٹھ اقساط کی یہ سیریز
مشت زنی کے عنوان سے لکھی گئی ہے لیکن درحقیقت اس سیریز میں اس کے علاوہ بھی بہت سارے
مردانہ امراض کی تفصیل دی گئی ہے جیسے کم ٹائمنگ , قطروں کا آنا , الہ تناسل کا سائز
, تناؤ میں کمی , مادہ منی کا پتلا ہونا , ڈپریشن اور انٹرنیٹ پر پھیلائی گئی ان پڑھ
لوگوں کی غیر سائنسی باتیں . لہٰذا آپ مشت زنی سے متعلقہ مسائل کے علاوہ بھی اس سیریز
سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں . ایک دفعہ پڑھنے سے اس میں موجود بہت سی باتیں سمجھ نہی
آتیں . لہٰذا اس سیریز کو ترتیب سے کئی بار پڑھیں
مذہب کے حوالے سے
مشت زنی کے بارے میں متضاد رائیں پائی جاتیں ہیں . کچھ کے نزدیک اس کی گنجائش ہے ,
کچھ اسے مکروہ کہتے ہیں اور کچھ کے مطابق مکمل حرام ہے . لہٰذا مذہب کے حوالے سے رہنمائی
حاصل کرنے کے لیے اپنے مسلک اور فرقے کے علما سے مدد حاصل کریں . میں یہاں اس موضوع
پر صرف سائینسی حوالے سے بات کروں گا . اگر آپ اسے مناسب نہیں سمجھتے تو یہیں رک جائیں
اور اگلا حصہ نہ پڑھیں
پنجابی کا ایک محاورہ
ہے کہ "پچانوے فیصد منڈے مٹھ ماردے نیں تے باقی پنج فیصد جھوٹ ماردے نے"
. مطلب مشت زنی ایک ایسا فعل ہے جو تقریباً پچانوے فیصد لوگ بلوغت کی عمر سے شادی تک
مسلسل کرتے ہیں اور باقی پانچ فیصد جھوٹ بولتے ہیں کہ نہیں کرتے . یہ محاورہ صرف پاکستانیوں
پر ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے لڑکوں پر صادق آتا ہے . ہاں البتہ اس سے نقصان صرف برصغیر
کے لوگوں کو پہنچتا ہے . چونکہ باقی دنیا میں اس سے کسی کو کوئی نقصان نہیں ہوتا اس
لیے پہلے پہل میرا خیال تھا کہ پاکستانی مرد جنسی لحاظ سے دنیا کی تمام قوموں سے زیادہ
کمزور ہیں اور شاید میں پاکستان کا واحد طاقتور سپر ہیرو ہوں جسے اس سے کوئی نقصان
نہیں پہنچا . لیکن پھر اس گروپ میں آ کر پتہ لگا کہ اور بھی کئی پاکستانی ہیں جو یہ
عمل باقائدگی سے کرتے ہیں اور انھیں کوئی نقصان نہیں پہنچتا . ایک ایسا ملک جس کی آبادی
دنیا میں سب سے زیادہ تیزی سے بڑھ رہی ہو ییقیناً اس کے مرد جنسی لحاظ سے دنیا کے کمزور
ترین مرد نہیں ہو سکتے . تو پھر کیا وجہ ہے اس مردانہ کمزوری کی؟
حال ہی میں ڈاکٹر
ارشد جاوید صاحب کی کتاب پڑھنے کا موقع ملا جس میں انھوں نے تفصیل سے بتایا ہے کہ مشت
زنی سے کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں ہوتا بلکہ اس کا فائدہ ہوتا ہے اور مردانہ کمزوری
صرف ایک نفسیاتی وہم ہے . نفسیاتی وہم ایک ایسی بیماری ہے کہ اس کے مریض کو کچھ بھی
نہیں سمجھایا جا سکتا . آپ لاکھ دلائل دے لیں لیکن وہ مسلسل انکار ہی کرتا رہے گا کیونکہ
ایسا مریض کچھ سمجھنا چاہتا ہی نہیں ہے
اکثر لوگ دعویٰ کرتے
ہیں کہ مشت زنی کی وجہ سے وہ نہ صرف جسمانی اور ذہنی طور پر کمزور ہو گئے ہیں بلکہ
ان کی زندگی تباہ ہو گئی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ حکیموں کے جھوٹے پروپیگنڈے کی وجہ
سے صرف ان کی نفسیات تباہ ہوئی ہوتی ہے . زیادہ تر لڑکے مشت زنی بلوغت سے لے کر شادی
ہونے تک کرتے ہیں . میں نے اپنی پچھلی پوسٹ "نوجوان نسل کے ذہنی اور جنسی مسائل"
میں تفصیل سے بتایا تھا کہ اس عمر میں نوجوانوں کو کن کن ذہنی , نفسیاتی , جذباتی اور
جنسی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے . پاکستان جیسے ملک میں جہاں نوجوانوں کو ان مسائل
سے نبرد آزما ہونے کی لیے کسی قسم کی مدد فرہم نہیں کی جاتی , بہت سے نوجوان ان مسائل
کے ہاتھوں شکست کھا جاتے ہیں . ایسے میں شاطر حکیم ان کی اس کمزوری کا فائدہ اٹھاتے
ہوے انھیں یقین دلا دیتے ہیں کہ ان کی ساری ناکامیوں اور کمزوریوں کی وجہ صرف اور صرف
مشت زنی ہے اور بیچارے نوجوان ان کی باتوں میں آ کر ایک نفسیاتی مریض بن جاتے ہیں
. نوجوان مشت زنی تو چھوڑ نہیں سکتے اور اوپر سے جب یہ یقین کر لیتے ہیں کہ ساری ناکامیاں
اسی کی وجہ سے ہیں تو وہ اپنے مسائل حل کرنے کی سرے سے کوشش ہی نہیں کرتے اور مسلسل
تباہ ہوتے جاتے ہیں . نتیجتاً حکیموں کے جھوٹ اور فریب سچ ثابت ہو جاتے ہیں اور ذہنی
پسماندگی کا یہ سلسلہ نسل در نسل چلتا رہتا ہے
مادہ منویہ یا منی
دو چیزوں پر مشتمل ہوتی ہے . ایک تو سپرم جو خصیوں میں بنتے ہیں اور دوسرے رطوبت جو
پروسٹیٹ گلینڈز میں بنتی ہے . خصیے اور پروسٹیٹ گلینڈز ہر وقت اپنا کام کرتے رہتے ہیں
اور جسم میں منی ہر وقت بنتی رہتی ہے . اس کام کے لیے انہیں معمولی سی خوراک کی ضرورت
ہوتی ہے جو ہماری کھائی ہوئی خوراک میں سے خون کے ذریے ان تک پہنچ جاتی ہے . عام حالات
میں ہماری خوراک خصیوں اور پروسٹیٹ گلینڈز کے لیے کافی ہوتی ہے . لیکن کثرت مباشرت
یا کثرت مشت زنی کی صورت میں ہماری خوراک میں موجود کچھ وٹامن اور نمکیات کافی نہیں
ہوتے . اس صورت میں یہ چیزیں گولیوں کی شکل میں اضافی لینی پڑتی ہیں . ان میں خاص طور
پر زنک , سیلینیم , کیلشیم , فاسفورس , وٹامن بی , وٹامن ای اور وٹامن ڈی شامل ہیں
. وٹامن بی اور زنک کے کمی پوری کرنے کے لیے Surbex-Z اور وٹامن ای کے لیے Evion-400mg مشہور ہیں . یہ دونوں گولیاں تقریباً ہر میڈیکل
اسٹور سے مل جاتی ہیں . وٹامن ڈی کے لیے Indrop-D بہترین ہے . ان گولیوں کا کوئی سائیڈ افیکٹ نہی
ہے لیکن انہیں ضرورت سے زیادہ استعمال نہ کریں ۔ جنرل فارمولا یہ ہے کہ
Surbex-Z اور
Evion-400mg کی ایک ایک گولی روز
صبح ناشتے کے بعد دودھ یا پانی کے ساتھ زیادہ سے زیادہ دو مہینے تک اور
Indrop-D ہفتے میں ایک دفعہ
چار ہفتے تک ۔ اس سے زیادہ ڈاکٹر کی ہدایت کے بغیر نہ لیں ۔
حکیموں کا یہ دعوی
بلکل لغو ہے کہ خون کے ستر قطروں سے ایک قطرہ ہڈیوں کا گودا بنتا ہے اور ہڈیوں کے گودے
کے ستر قطروں سے ایک قطرہ منی کا بنتا ہے . ہاں البتہ یہ ممکن ہے کہ زمانہ قدیم میں
جب میڈیکل سائینس نہیں تھی تو طبیبوں نے ایسا اخذ کیا ہو . مثلاً ہمیں روز پندرہ ملی
گرام زنک کی ضرورت ہوتی ہے . مرغی کے ایک انڈے میں تقریباً آدھا ملی گرام زنک ہوتا
ہے . اگر ہم سارا زنک انڈوں سے پورا کرنا چاہیں تو ہمیں روز تیس انڈے کهانے ہوں گے
. عین ممکن ہے زمانہ قدیم میں کسی طبیب نے دیکھا ہو کہ مشت زنی کی وجہ سے جو کمزوری
ہوتی ہے وہ تیس انڈے روز کھانے سے ختم ہو جاتی ہے لہٰذا اس بنا پر اس نے یہ ستر قطروں
والا فارمولا بنا لیا ہو . اب سائینس اتنی ترقی کر چکی ہے کہ ہمیں معلوم ہے کہ منی
کے بننے کے لیے کن کن نمکیات کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ نمکیات اب خالص حالت میں گولیوں
کی شکل میں بھی ملتے ہیں . لیکن افسوس حکیم حضرات زمانہ قدیم کی کتابوں سے باہر نکل
ہی نہیں سکے کہ انھیں ان چیزوں کی سمجھ آتی اور آج بھی وہ برصغیر کی عوام کو انہی فرسودہ
باتوں سے بیوقوف بنا رہے ہیں . اوپر سے الاماشاللہ ہماری عوام جو بیوقوف بننے کے لیے
ہر وقت تیار بیٹھی رہتی ہے . رہے نام سائیں کا , اس نے ہر ایک کی روزی روٹی کا بندوبست
کیا ہوا ہے
اکثر یہ سوال کیا
جاتا ہے کہ اگر مشت زنی کا کوئی نقصان نہیں ہے تو زنک اور وٹامن کی گولیاں کھانے کو
کیوں کہا جاتا ہے . اسے آپ اس طرح سے سمجھ سکتے ہیں کہ ایک مزدور روز روٹی پر پیاز
توڑ کر رکھتا ہے اور اس سے اپنا پیٹ بھر لیتا ہے . ساری زندگی مزدور کا کام اس ایک
روٹی اور پیاز سے چلتا رہتا ہے . لیکن ایک پہلوان , باڈی بلڈر یا ایک اتھلیٹ بھی اگر
یہی خوراک کھانی شروع کر دے تو کیا وہ کوئی میڈل جیت پائے گا ؟ اسی طرح مشت زنی کرنے
والوں کو بھی اضافی نمکیات اور وٹامنز کی ضرورت ہوتی ہے جو خوراک سے پورے نہیں ہو سکتے
. اس فیلڈ کی مہان ہستیوں کو جو دن میں کئ بار مشت زنی پر قدرت رکھتے ہیں , اور بھی
زیادہ ان نمکیات وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے . لہٰذا نمکیات اور وٹامن کی ان گولیوں کو
دوائی نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ یہ میدان مشت زنی میں جوہر دکھانے کے لیے اضافی خوراک
ہوتی ہے
اس بات کو اس مثال
سے سمجھ لیں کہ قدرت نے ایک کار دی . پہلے حکیم آئے ، انھوں نے اسے چلایا اور دیکھا
کہ سو میل کے بعد کار بند ہو گئی . حکیموں نے نتیجہ اخذ کیا کہ کار کو چند میل سے زیادہ
نہ چلایا جائے ورنہ یہ ختم ہو جاتی ہے . پھر میڈیکل سائنس اور ڈاکٹر آئے . انھوں نے
کار کے سسٹم پر جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ریسرچ کی اور اسے اچھی طرح سمجھا اور دریافت
کیا کہ زیادہ چلانے سے کار ختم نہی ہوتی بلکہ اس میں پیٹرول ختم ہو جاتا ہے . آپ پیٹرول
ڈالتے رہیں اور کار کو چلاتے رہیں . اس کے بعد انھوں نے پیٹرول کے چھوٹے ساشے پیک کی
بجائے بڑے بڑے ڈرم بھی بنا دیے . مطلب پندرہ گرم زنک پورا کرنے کے لیے آپ کو روز تیس
انڈے کھانے کی ضرورت نہی ہے بلکہ زنک کی ایک چھوٹی سی گولی لے لیں ۔
مشت زنی یا مباشرت
کے بعد انسان ریلکس ہو جاتا ہے . کچھ لوگ اسے کمزوری سمجھتے ہیں لیکن یہ غلط ہے . درحقیقت
یہ ایک سکون کی کفیت ہوتی ہے . جب انسان ریلکس ہوتا ہے تو تھوڑی دیر کے لیے اس کے اعصاب
بھی سست ہو جاتے ہیں . اعصاب کے لیے یہ ریسٹ بہت فائدہ مند ہوتا ہے . یہ ایسے ہی ہے
جیسے کہ اگر آپ کسی ساحل سمندر پر لیٹ کر سن باتھ یا غسل آفتابی کریں تو آپ محسوس کریں
گے کہ آپ پر سستی چھا گئی ہے یا کمزوری لگ رہی ہے . لیکن حقیقت میں اس طرح کے ریسٹ
سے فریش ہونے کے بعد جب آپ دوبارہ اپنے کاموں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو ذہنی صلاحیتیں
بہت زیادہ بڑھ جاتی ہیں . اس کے بجائے اگر آپ کے ذہن میں یہ بٹھا دیا جائے کہ یہ آپ
کو ایک طرح کی کمزوری لاحق ہو گئی ہے تو اس سٹریس کی وجہ سے ذہنی صلاحیتیں مزید مفلوج
ہو جاتی ہیں . کمزری محسوس کرنے کی دوسری وجہ آکسیٹوسن ہارمون ہے . یہ ہارمون انزال
کے وقت دماغ کے پیغام بھیجنے پر جسم میں پیدا ہوتا ہے . اس ہارمون کی وجہ سے آلہ تناسل
کے قریب کچھ مسل سکڑتے ہیں جس سے انزال کا عمل ہوتا ہے . یہ وہی ہارمون ہے جو عورتوں
میں بھی بچے کی پیدائش کے وقت پیدا ہوتا ہے جس سے انھیں کنٹریکشنز ہوتی ہیں اور بچہ
باہر آتا ہے . آکسیٹوسن ہارمون کے زیر اثر جب مسل سکڑتے ہیں تو یہ قدرے تکلیف دہ عمل
ہوتا ہے . تکلیف کے علاوہ اس کا کوئی اور نقصان نہی ہے اور یہ کیفیت بھی جلد ہی ختم
ہو جاتی ہے لیکن کچھ لوگوں میں زیادہ دیر تک بھی رہ سکتی ہے . اگر ان کے ذہن میں پہلے
ہی حکیمی باتوں کا خوف بیٹھا ہوا ہو تو وہ انزال کے وقت بننے والے آکسیٹوسن ہارمون
کی وجہ سے ہونے والی کیفیت کو کمزوری سمجھنے لگتے ہیں جو صرف ان کا وہم ہوتا ہے . لہٰذا
مشت زنی کے بعد ہونے والی اس ریلکس کی کیفیت کو وہم بنا کر دماغ پر سوار کرنے کی بجائے
اس سے لطف اندوز ہوں اور پھر تندہی سے اپنے کاموں میں لگ جائیں
کئی نوجوان محسوس
کرتے ہیں کہ مشت زنی کی وجہ سے ان کے آلہ تناسل کا سائز کم رہ گیا ہے , موٹائی کم ہو
گئی ہے یا ٹیڑھا ہو گیا ہے . یہ بھی صرف نفسیاتی وہم ہوتا ہے . حقیقت یہ ہے کہ یہ سب
چیزیں پیدائشی ہوتی ہیں . آپ کے جینز ان سب کا فیصلہ کرتے ہیں . اگر آپ بہت زیادہ چلیں
یا ڈور لگائیں تو کیا آپ کی ٹانگیں چھوٹی ہو جاتی ہیں؟ کیا ہاتھوں کو روز استعمال کرنے
سے انگلیاں چھوٹی یا کمزور ہو جاتی ہیں؟ کیا زیادہ بولنے سے زبان کمزور ہو جاتی ہے؟
کیا آپ نے کبھی دیکھا ہے کہ کسی کی ایک ٹانگ یا ایک ہاتھ بڑا ہو گیا ہو . اگر ان سب
کا جواب نفی میں ہے تو سمجھ لیں کہ آلہ تناسل بھی اسی طرح کا جسم کا ایک حصہ ہے . اس
کو بھی استمال کرنے سے اس کی ساخت پر کوئی فرق نہیں پڑتا . ہاں اگر جسم کے اندر نمکیات
وغیرہ میں کوئی کمی بیشی ہو یا ڈپریشن ہو تو اس سے الہ تناسل کے تناؤ پر فرق پڑتا ہے
جو نمکیات اور وٹامن کی کمی پوری کرنے یا ڈپریشن کا علاج کروانے سے دور ہو جاتا ہے
درحقیقت اگر جسم کا
کوئی حصہ اچانک سے بڑا ہو جائے تو میڈیکل کی اصطلاح میں اسے کینسر کہا جاتا ہے . لہٰذا
جب آپ کسی سے اپنے آلہ تناسل کے بڑا کرنے کا پوچھ رہے ہوتے ہیں تو دراصل آپ یہ پوچھ
رہے ہوتے ہیں کہ کیا کسی دوائی سے آپ کو آلہ تناسل کا کینسر ہو سکتا ہے ۔ لہٰذا یاد
رکھیں کسی بھی دوائی ، ٹوٹکے ، پمپ یا آپریشن وغیرہ سے آلہ تناسل بڑا نہی ہو سکتا اور
نہ ہی مشت زنی یا کسی اور عمل سے یہ چھوٹا ہوتا ہے . انسانی تاریخ میں آج تک کبھی ایسا
کچھ نہی ہوا ۔ حکیم سفید جھوٹ بولتے ہیں ۔ سائنسدانوں نے ہر طرح کے تجربات کر کے دیکھ
لیے ہیں لیکن آج تک کسی میں کامیابی نہیں ہوئی . اس طرح کی بہت سی پراڈکٹس مارکیٹ میں
دستیاب ہیں لیکن یہ سب پیسہ بٹورنے کے طریقے ہیں . جس دن کسی نے اس میں کامیابی حاصل
کر لی وہ چند دنوں میں دنیا کا سب سے امیر آدمی بن جائے گا نہ کہ کسی گلی کے نکڑ پر
چھوٹی سی دکان بنا کر بیٹھا ہو گا کیونکہ امیر لوگ ایسی دوائی یا آلے کے لیے کروڑوں
روپے بھی دینے کو تیار ہو جائیں گے . یقین رکھیں ابھی تک دنیا میں ایسی کوئی چیز نہی
بنی ہے . لہٰذا ان چیزوں میں اپنا وقت اور پیسا برباد نہ کریں
.
پاکستان میں الہ تناسل
کا اوسط سائز 3 سے 4 انچ ہے . حتی کہ انگلینڈ اور امریکہ میں بھی گوروں کا اوسط سائز
4.5 انچ ہے . اگر یقین نہیں آتا تو گوگل پر سرچ کر کے دیکھ لیں . عربوں کے بارے میں
خیال کیا جاتا ہے کہ ان کے الہ تناسل بہت بڑے ہوتے ہیں لیکن یہ بھی محض سنی سنائی بات
ہے . میڈیکل سروے کے مطابق عراق میں اوسط سائز 4.5 انچ , کویت , سعودی عرب , قطر اور
یمن میں 4.8 انچ اور بحرین میں 5 انچ ہے . افریقہ کے عرب ممالک الجزائر , لیبیا , مصر
اور تیونس میں 5.4 انچ ہے . عورت کی اندام نہانی کا صرف شروع کا دو انچ حصہ حساس ہوتا
ہے . اگر آپ کا الہ تناسل دو انچ سے بڑا ہے تو کافی ہے . درحقیقت بڑے آلہ تناسل کا
نقصان ہوتا ہے . مباشرت کے وقت یہ آگے جا کر بچہ دانی کے منہ سے ٹکراتا ہے جس سے مرد
کو بھی تکلیف ہوتی ہے اور عورت کو بھی . اگر عورت انزل کے قریب بھی ہو اور الہ تناسل
آگے جا کر ٹکرائے تو تکلیف کی وجہ سے عورت کا جوش فوراً ختم ہو جاتا ہے اور الٹا وہ
فرسٹریشن کا شکار ہو جاتی ہے . اچھے پمپ کے مسلسل استمال سے الہ تناسل کو تھوڑا موٹا
کیا جا سکتا ہے لیکن یہ بھی وقتی ہوتا ہے . چند دنوں میں یہ واپس اپنے اصل سائز پر
آ جاتا ہے . لہٰذا آپ کا سائز جتنا بھی ہے اس پر شکر ادا کریں اور اسے بڑا یا موٹا
کرنے کا وہم دل سے نکال دیں . نہ تو ہم اپنی ٹانگ بڑی کر سکتے ہیں , نہ ہاتھ کی انگلیاں
اور نہ ہی الہ تناسل . ان سب کے سائز کا فیصلہ ہماری پیدائش کے وقت جینز کی وجہ سے
ہو جاتا ہے اور پھر ساری عمر وہی رہتا ہے . نہ ہی مشت زنی اسے کم کر سکتی ہے اور نہ
ہے کوئی دوائی یا پمپ اسے بڑھا سکتی ہے
اسی طرح ٹیڑھا ہونا
بھی کوئی مسلہ نہیں ہے . جن لوگوں کے آلہ تناسل ذرا بڑے ہوتے ہیں وہ تناؤ آنے کے بعد
تھوڑے ٹیڑھے ہو جاتے ہیں . عورت کو اس ٹیڑھے پن سے کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ کچھ صورتوں
میں زیادہ لطف آتا ہے کیونکہ یہ اندام نہانی کی دیوار پر زیادہ رگڑ کھاتا ہے . یاد
رکھیں اسی اندام نہانی سے بچہ نکل کر آتا ہے جو کسی پائپ کی شکل کا نہیں ہوتا . اگر
بچہ اس میں سے باسانی گزر سکتا ہے تو ٹیڑھا آلہ تناسل بھی بخوبی اپنا کام کر سکتا ہے
.ٹیڑھے آلہ تناسل کو سیدھا کرنا ممکن نہی ہے اور نہ ہی اس کی کوئی ضرورت ۔ اس کا کوئی
نقصان نہی ہے ۔ لہذا اپنا وقت اور پیسہ ضایع نہ کریں ۔
کئی نوجوان کہتے ہیں
کہ مشت زنی سے ان کی منی پتلی ہو گئی ہے . یہ جہالت والی بات ہے جو کہ لوگ انپڑھ حکیموں
سے سن کر کرتے ہیں . منی پتلی یا گاڑھی کچھ نہی ہوتا . اصل چیز ہے کہ منی میں سپرم
کتنے ہیں اور ان میں کتنے فیصد نارمل شیپ والے ایکٹو ہیں . باقی منی جتنی پتلی ہو اتنا
ہی اچھا ہے تاکہ سپرم آسانی سے تیر سکیں . گاڑھی منی کا مطلب ہے کہ جسم میں پانی کی
کمی ہے . اگر آپ کو منی کے بارے میں کوئی شبہ ہے تو کسی لباٹری سے منی کا ٹیسٹ کروائیں
. اگر رپورٹ میں کوئی پرابلم نظر آئی تو اس کا علاج ہو جائے گا لیکن ویسے منی پتلی
ہونے کا کوئی نقصان نہی ہے اور نہ ہی اسے گاڑھا کرنے کی ضرورت ہے . یہ بھی غلط ہے کہ
پتلی منی سے مباشرت کا ٹائم کم ہوتا ہے ۔ ان سب وہموں کو ذہن سے نکال دیں ۔
اکثر لوگوں میں احتلام
کے حوالے سے بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں . مثلاّ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ مشت زنی
کی وجہ سے احتلام زیادہ ہوتا ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے . مشت زنی کرنے والوں کو
بہت کم احتلام ہوتا ہے . دوسری غلط فہمی یہ ہے کہ احتلام سے کمزوری ہو جاتی ہے . اگر
کسی کو احتلام سے کمزوری محسوس ہوتی ہے تو یہ صرف اس کا وہم ہے . احتلام میں زیادہ
سے زیادہ پانچ ملی لیٹر منی نکلتی ہے جس میں ایک گرام پروٹین ، ایک گرام کا بیسواں
حصہ فرکٹوز اور معمولی سے کیلشیم ، زنک اور دوسرے معدنیات ہوتے ہیں . یہ سارا نقصان
دو چار چمچے دودھ یا گوشت کی آدھی بوٹی کھانے سے پورا ہو جاتا ہے . باقی بات کو سمجھنے
کے لیے آپ کو کوئی بڑا سائنسدان ہونے کی ضرورت نہی ہے . تھوڑی سی عقل سے سوچیں کیا
اتنی معمولی چیز کے جسم سے نکلنے سے کوئی کمزوری ہو سکتی ہے ؟
اب اس کے ساتھ ہی
احتلام ہونے کی وجہ بھی سمجھ لیں . ہمارے خصیوں یا فوطوں میں نئے سپرم ہر وقت بنتے
رہتے ہیں . ہر گھنٹے میں پانچ ملین نئے سپرم بنتے ہیں . اتنی سپیڈ میں بننے والے سپرم
کے ساتھ اگر پرانے سپرم ختم نہ ہوں تو خصیے پریشر سے پھٹ جائیں . اس لیے نئے سپرم بننے
کے ساتھ ساتھ پرانے سپرم جسم میں جذب ہو کر ختم بھی ہوتے رہتے ہیں . جو لوگ جنسی طور
پر صحتمند ہوتے ہیں ان میں نئے سپرم بہت زیادہ تیزی سے بنتے ہیں جبکہ جسم پرانے سپرم
کو اتنی سپیڈ سے ختم نہی کر پاتا . اس لیے جب خصیوں میں پریشر بڑھ جاتا ہے تو جسم ان
کو پیشاب کی نالی سے نکال دیتا ہے جسے ہم احتلام کہتے ہیں اور اس کا موقع جسم کو ہمارے
سونے کے دوران ملتا ہے جب جسم پر ہمارا کنٹرول بلکل نہی ہوتا . آپ یہ کہ سکتے ہیں کہ
احتلام وہ مشت زنی ہے جو ہمارا جسم خود بخود کرتا رہتا ہے اور اس سے کوئی نہی بچا
۔ احتلام کو کم کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ نئے بننے والے سپرم کی سپیڈ کم کر دی جائے
یعنی مردانہ طاقت کم کی جائے . یاد رکھیں ایسا کرنا مردانہ طاقت کے لیے نقصان دہ ہو
سکتا ہے . میں نے ایسے کئی مریض دیکھے ہیں جنہوں نے کسی حکیم سے احتلام کو کم کرنے
کا علاج کروایا تو کچھ عرصے بعد ان میں شہوت بہت کم ہو گئی یا منی کی کوالٹی خراب ہو
گئی ۔ اس لیے اچھی طرح سمجھ لیں کہ احتلام ہونا ایک اچھی جنسی صحت کی نشانی ہے ، اس
سے کسی قسم کی کمزوری نہی ہوتی اور اس کے علاج کی بالکل ضرورت نہی ہے . احتلام جتنا
بھی ہو اسے ہونے دیں ، یہ قدرت کا سسٹم ہے اور صحت کے لیے بہتر ہے . اس کےساتھ ہی یہ
بھی بتا دوں کہ جنہیں احتلام نہی ہوتا انہیں بھی گھبرانے کی ضرورت نہی ہے ۔ ان میں
نئے سپرم بننے اور پرانے سپرم ختم ہونے کی سپیڈ برابر ہوتی ہے ۔ پھر بھی اگر کوئی شک
ہو تو منی کو کسی بھی لباٹری سے ٹیسٹ کروا لیں ۔
اسی سے ملتی جلتی
ایک اور غلط فہمی جو اکثر نوجونوں میں پائی جاتی ہے وہ ٹائمنگ کے حوالے سے ہے . کچھ
نوجوان کہتے ہیں کہ مشت زنی کی وجہ سے ان کی مباشرت کی ٹائمنگ زیرو ہو گئی ہے . یہ
محض ان کی غلط فہمی ہے . حقیقت یہ ہے کہ کم ٹائمنگ جنسی اور جسمانی صحت کی نشانی ہے
. نوخیز جوانی میں جب کوئی سٹریس اور دماغی بوجھ نہی ہوتا ، جنسی ہارمون اور جنسی گلینڈ
ٹھیک کام کر رہے ہوتے ہیں اور شباب کے جذبات پوری طرح عروج پر ہوتے ہیں تو دماغ پوری
طرح مباشرت پر فوکس کرتا ہے ۔ دماغ تمام گلینڈ کو بھرپور میسج بھیجتا ہے جس کی وجہ
سے جلد از جلد آکسیٹوسن ہارمون خارج ہوتا ہے اور فوراّ انزال ہو جاتا ہے . ہم تو چاہتے
ہیں کہ زیادہ سے زیادہ ٹائم ہو لیکن ہمارے جسم کی کوشش ہوتی ہے کہ جلد از جلد انزال
ہو تاکہ جلدی سے حمل ٹہر سکے . انسانی نسل کی بقا انسانی نسل کے بڑھانے میں ہے اور
ہمارا جسم اسی اصول کی پیروی کرتا ہے . ایک صحتمند اور جنسی طور پر طاقتور جسم ہماری
منشاء کے خلاف جا کر کم سے کم ٹائمنگ میں انزال کر دیتا ہے . لہذا کم ٹائمنگ کوئی بیماری
یا کمزوری نہی بلکہ جنسی صحت کی نشانی ہے . میں اکثر نوجوانوں کو مشورہ دیتا ہوں کہ
ابھی ٹائمنگ کی بلکل فکر نہ کرو . شادی کے کچھ عرصے بعد ٹائمنگ خود بخود بڑھ جائے گی
. اس کی وجہ یہ ہے کہ شادی ہونے تک کچھ تو انسان کی عمر پختہ ہو چکی ہوتی ہے ، کچھ
وہ فکرات اور پریشانیوں میں گھر جاتا ہے ، اور سب سے بڑی بات یہ کہ شادی کے پہلے دو
مہینوں میں دن رات مباشرت کر کر کے اس کا جذباتی جوش بھی دھیما ہو چکا ہوتا ہے . ان
سب کی وجہ سے دماغ سیکس پر بہت زیادہ فوکس نہی کرتا اور ٹائمنگ بڑھ جاتی ہے . اگر شادی
کے کچھ عرصے بعد بھی ٹائمنگ نہ بڑھے تو اس کے لیے میں نے گیارہ اقساط کی ایک الگ سیریز
لکھی ہے جو پی ڈی ایف کی شکل میں گروپ کے فائل والے سیکشن میں ہے . اسے ڈاؤنلوڈ کر
کے پڑھیں . یہاں صرف اتنا سمجھ لیں کہ مشت زنی سے ٹائمنگ کم نہی ہوتی . یہ آپ کی نوجوانی
کی عمر کی وجہ سے ہے . اس عمر میں سب کی ٹائمنگ کم ہی ہوتی ہے یا بلکل زیرو ہوتی ہے
یعنی دخول سے پہلے ہی انزال ہو جاتا ہے . اس کا کوئی علاج نہی ہے ، بس شادی ہونے کا
انتظار کریں . ٹائمنگ بڑھانے کی کوئی دوائی نہی ہے . ویاگرہ وغیرہ آلہ تناسل کے تناؤ
کے لیئے ہوتی ہیں ٹائمنگ بڑھانے کے لیے نہی ۔ ایک دوائی جو ہم کبھی کبھار شادی شدہ
لوگوں کو کچھ دن کے لیے ٹائمنگ بڑھانے کے لیے دیتے ہیں وہ دراصل ڈپریشن کی دوائی ہے
. ڈپریشن کی تمام ادویات اعصابی نظام کو سلو کرتی ہیں جس کی وجہ سے مریض کو دماغی ہیجان
سے سکون ملتا ہے . شادی شدہ لوگوں میں جب اعصابی نظام سلو ہوتا ہے تو اس سے دماغ میں
جوش کم ہو جاتا ہے جس سے ٹائمنگ بڑھ جاتی ہے . ایسی ادویات کے کافی زیادہ سائیڈ افیکٹ
ہوتے ہیں اور اگر زیادہ عرصہ استعمال کی جائیں تو انسان ان کا ایسے ہی عادی ہو جاتا
ہے جیسے نشئی حضرات افیم ، چرس اور ہیروئن کے عادی ہوتے ہیں . لہٰذا ان ادویات سے بچنا
چاہیے . شادی چونکہ زندگی کا ایک اہم موڑ ہوتا ہے اور اکثر لوگ ویسے ہی اس ٹائم پر
دیگر مسائل اور خرچے کی وجہ سے سٹریس میں ہوتے ہیں تو ہم انھیں ایک دو ماہ کے لیے یہ
ادویات دے دیتے ہیں جس سے انھیں سکون بھی ملتا ہے اور ٹائمنگ بھی ٹھیک رہتی ہے . اس
کے علاوہ یہ ادویات کبھی استمعال نہ کریں
غلط فہمیوں کے امبار
میں ایک اور غلط فہمی یہ ہے کہ مشت زنی سے آلہ تناسل کی رگیں دب جاتی ہیں یا مردہ ہو
جاتی ہیں . ایسی باتیں سارے ہی حکیم کرتے ہیں کیونکہ انھوں نے کبھی الہ تناسل کو اندر
سے نہی دیکھا ہوتا. انھیں اس کی اجازت ہی نہی ہے . صرف ڈاکٹر میڈیکل کالج میں جسم کے
ایک ایک حصے کو کھول کر اندر سے مشاہدہ کرتے ہیں اور مختلف اعضاء کی حقیقت کو سمجھتے
ہیں . آلہ تناسل میں کوئی ایسی رگ نہی ہوتی جو ہاتھ سے دب سکے . اگر کسی ایکسیڈنٹ وغیرہ
کی وجہ سے یہ رگ مردہ ہو جائے تو چند دن میں الہ تناسل مردہ ہو کر گلنے لگے گا اور
آخر کار ٹوٹ کر گر جائے گا . آلہ تناسل میں ان دو رگوں کے علاوہ باقی سارا حصہ اسپنج
کی طرح ہوتا ہے جس میں خون جمع ہوتا ہے تو وہ سخت ہو جاتا ہے اور خون نکل جائے تو دوبارہ
ڈھیلا ہو جاتا ہے . خون کی اس سپلائی کو دماغ کنٹرول کرتا ہے اور دل خون کو پمپ کرتا
ہے . اگر کسی کو آلہ تناسل میں تناؤ میں کوئی مسلہ آ رہا ہے تو وجہ یا تو دماغ ہو گا
یا دل . بذات خود آلہ تناسل میں کوئی ایسی چیز نہی ہے جو تناؤ کو کم یا زیادہ کر سکے
. لہٰذا مشت زنی کے دوران آلہ تناسل کو پکڑنے سے اسے کسی قسم کا کوئی نقصان نہی پہنچتا
. ایسے سارے وہم دماغ سے نکال دیں . اسی طرح آلہ تناسل پر تیل یا طلاء وغیرہ کی مالش
کا بھی کوئی فائدہ نہی ہوتا ۔ ابھی بتایا ہے کہ تناؤ کا تعلق دماغ کے پیغام بھیجنے
اور دل کے خون سپلائی کرنے سے ہے . جب بذات خود آلہ تناسل میں تناؤ کو کنٹرول کرنے
والی کوئی چیز ہے ہی نہی تو اس پر کسی قسم کی مالش کا کس طرح کوئی فائدہ ہو سکتا ہے
. یہ سب صرف وقت اور پیسے کا ضیاع ہے اور الٹا انسان کو ذہنی مریض بناتا ہے ۔
ہمارے اکثر مردوں
کا مسلہ یہ ہے کہ کام کے دوران سیکس کے بارے میں سوچتے ہیں اور سیکس کے دوران کام کے
بارے میں . اگر جان بوجھ کر نہ بھی سوچیں تو دماغ کے بیک گراؤنڈ یعنی تحت الشعور میں
پریشانیاں اور ٹینشنز چلتی رہتی ہیں . یا یوں کہ لیں کہ کام کی سٹریس اور دوسری فکروں
کی وجہ سے دماغ بوجھل رہتا ہے . پہلے سے بوجھل اور تھکا ہوا دماغ صحیح طرح سے سیکس
کے پیغامات کو ہینڈل نہی کر پاتا اور خون کا دوران آلہ تناسل کی طرف پوری قوت سے نہی
بھیجتا جس کے نتیجے میں تناؤ صحیح طرح سے نہی ہوتا اور ایریکشن کی پرابلم ہو جاتی ہے
. ایسی صورت میں علاج طاقت کی دوائیں نہی ہے بلکہ سٹریس اور َاینگزائیٹی کو کم کرنے
والی دوائی ہوتا ہے . اگر آپ کی عمر تیس سال سے کم ہے اور ایریکشن کا مسلہ ہے تو سب
سے پہلے خون میں ٹیسٹوسٹیرون کا لیول ٹیسٹ کروائیں . اگر ٹیسٹوسٹیرون کا لیول مناسب
ہو تو آپ کی ایریکشن کی سو فیصد وجہ سٹریس اور َاینگزائیٹی ہے . کسی ڈاکٹر سے اس کی
دوائی لیں . یاد رکھیں ایریکشن کا تعلق مشت زنی سے بلکل نہی ہے . یہ وہم دماغ سے نکال
دیں . جسم کے کسی بھی حصے میں خوں کی گردش کم یا زیادہ کرنا دماغ کا کام ہوتا ہے ,
اس حصے کا نہی . لہٰذا الہ تناسل کے تناؤ کو بہتر کرنے کے لیے دماغ اور اعصاب کو بہتر
بنائیں . یہ تیل اور طلا وغیرہ سب فراڈ ہیں . ان سے بچیں . اگر خون میں ٹیسٹوسٹیرون
کا لیول نارمل سے کم ہو تو اس کا علاج مختلف ہو گا . اس کے لیے کسی ڈاکٹر سے رجوع کریں
مشت زنی پر کوئی بھی
مضمون قطروں کے ذکر کے بغیر مکمل نہی ہو سکتا . غلط عام میں پائی جانے والی سب سے بڑی
غلط فہمی جو کہ حکیم حضرات ہی پھیلاتے ہیں وہ یہ ہے کہ مشت زنی سے قطرے آنے شروع ہو
جاتے ہیں اور قطرے آنے سے کمزوری ہو جاتی ہے ۔ یہ دونوں ہی باتیں غلط ہیں . اس غلط
فہمی کی وجہ حکیم حضرات کا ناقص علم اور جدید تحقیق سے آگاہ نہ ہونا ہے . آئیے قطروں
کو اچھی طرح سمجھتے ہیں ۔
قطرے چار طرح کے ہوتے
ہیں . ہر ایک کی وجہ ، پہچان اور اثرات الگ ہیں . پہلی قسم ان قطروں کی ہے جسے مذی
کہتے ہیں . یہ قطرے اس وقت آتے ہیں جب انسان سیکس کے بارے میں سوچتا ہے . یہ شفاف ہوتے
ہیں اور ان میں کوئی بدبو نہی ہوتی . یہ ایک طرح کا قدرتی لبریکینٹ ہوتا ہے . جب دماغ
سیکس کے بارے میں سوچتا ہے تو فوراّ ہی آلہ تناسل کو تیار کرنا شروع کر دیتا ہے . آلہ
تناسل میں تحریک ہونی شروع ہو جاتی ہے ، تناؤ ہونے لگتا ہے اور یہ مذی کے قطرے نکلنے
لگتے ہیں . فون پر پارٹنر سے بات کرتے ہوئے جو قطرے نکلتے ہیں وہ یہی ہوتے ہیں ۔ یہ
قطرے آلہ تناسل پر لگیں تو دخول میں آسانی ہوتی ہے اور انزال کے وقت اندرونی نالیوں
میں رگڑ وغیرہ نہی لگتی . ان قطروں سے کسی قسم کی کوئی کمزوری نہی ہوتی . یہ قطرے اس
بات کی نشانی ہیں کہ آپ کا سسٹم ٹھیک کام کر رہا ہے . ان قطروں کا آنا اچھا ہے . انہی
روکنے کی کوشش نہ کریں ورنہ انزال کے وقت نالیوں کے اندر سوزش ہو سکتی ہے
دوسری طرح کے قطرے
منی کے قطرے ہوتے ہیں . یہ دودھیا رنگ کے گاڑھے لیسدار ہوتے ہیں اور ان میں بھی بدبو
نہی ہوتی . جیسا کہ پہلے بتایا ہے کہ جسم میں سپرم بہت تیزی سے بنتے ہیں . ایک دفعہ
آنکھ جھپکنے میں دو ہزار نئے سپرم بن کر تیار ہو جاتے ہیں . اس تیز سسٹم کی وجہ سے
صحتمند لوگوں کے خصیے ہر وقت سپرم سے بھرے رہتے ہیں .احتلام کے بارے میں تو آپ کو معلوم
ہی ہو گا کہ آپ کا جسم آپ کی مرضی کے بغیر بھی منی کو باہر نکالنے کی طاقت رکھتا ہے
. جیسے ہی انسان کے دماغ میںشہوت والے خیالات آتے ہیں تو دماغ انزال کی تیاری شروع
کر دیتا ہے . اگر یہ کفیت کچھ دیر تک قائم رہے تو خصیوں کے قریب والے مسل میں ہونے
والے ارتعاش کی وجہ سے کچھ سپرم باہر نکل آتے ہیں . ایسے ہی سمجھ لیں کہ ایک پیالہ
اگر پانی سے فل بھرا ہوا ہو تو پیالے کے معمولی سے ہلنے سے بھی پانی باہر گرنے لگے
گا . بالکل یہی ایسے صحتمند لوگوں میں ہوتا ہے جن کے خصیے ہر وقت سپرم سے بھرے ہوئے
ہوتے ہیں. بعض اوقات اگر سیکس کے بارے میں نہ بھی سوچیں تو ہلنے جلنے کی وجہ سے ہی
کچھ سپرم باہر نکل آتے ہیں . جس طرح ایک گھنٹے میں پانچ ملین نئے سپرم بنتے ہیں اسی
طرح جسم ایک گھنٹے میں پانچ ملین پرانے سپرم کو ختم کر کے جذب بھی کرتا ہے . اگر ان
میں سے کچھ سپرم قطروں کی شکل میں باہر نکل آئیں تو کسی قسم کا کوئی فرق نہی پڑتا
. بلکہ جسم کو ان سپرم کے ختم کرنے پر توانائی ضایع نہی کرنی پڑتی ۔ اس کے علاوہ اگلے
چند سیکنڈ میں ہی ان کی جگہ نئے سپرم بن جاتے ہیں . ان قطروں سے بھی کسی قسم کی کمزوری
ہونا ناممکن ہے . اگر کسی کو کمزوری محسوس ہوتی ہے تو یہ صرف اور صرف اس کا وہم ہے
. ان قطروں کو روکنے کے لیے آپ کو ایسی دوائیاں کھانی پڑیں گی جن سے سپرم بننے کا عمل
آہستہ ہو جائے . یاد رکھیں ایسا کرنا سخت نقصان دہ ہو سکتا ہے . عین ممکن ہے کہ کسی
ایسے علاج کے کچھ عرصے بعد آپ کے سپرم بننا بلکل ہی رک جائیں . میں نے ایسے کئی مریض
دیکھے ہیں جنہوں نے کسی حکیم سے قطروں کا علاج کروایا اور بعد میں اولاد پیدا کرنے
کے ہی قابل نہ رہے ۔
قطروں کی تیسری قسم
پیشاب کے قطرے ہوتے ہیں . یہ شفاف یا ہلکے پیلے رنگ کے ہوتے ہیں ۔ لیسدار نہی ہوتے
اور ان میں معمولی سی پیشاب والی بو بھی ہوتی ہے . کچھ لوگوں میں یہ قطرے جوانی کے
اوائل سے ہی آنے لگتے ہیں اور کچھ لوگوں میں پچیس تیس سال کی عمر میں شروع ہوتے ہیں
. کبھی کبھار یہ کچھ عرصہ تک آنے کے بعد خود ہی رک بھی جاتے ہیں . ان قطروں کی وجہ
پیشاب کے وقت کچھ پیشاب کا نالی میں ہی رہ جانا ہے . پیشاب کی نالی میں دو بینڈ ہوتے
ہیں اور یہ انگلش کے حروف ایس کی شکل کی ہوتی ہے . اگر کسی کا یہ بینڈ زیادہ ہو جائے
تو پیشاب پوری طرح باہر نہی نکلتا بلکہ تھوڑا سا نالی میں ہی رہ جاتا ہے . یہ رکا ہوا
پیشاب بعد میں قطروں کی شکل میں نکلتا رہتا ہے . بھلا جب پورا پیشاب کرنے سے کوئی کمزوری
نہی ہوتی تو ان چند قطروں کے نکلنے سے کس طرح ہو سکتی ہے . ان قطروں کا علاج کسی بھی
میڈیکل یا حکیمی دوائی سے نہی ہو سکتا . بنیادی طور پر اس کا کوئی حل نہی ہے . صرف
یہ کریں کہ پیشاب سے فارغ ہونے کے بعد خصیوں کے نیچے والی جگہ کو تھوڑا سا دبائیں اور
یا پھر کھڑے ہو کر دو منٹ انتظار کریں اور پھر خصیوں کے نیچے والی جگہ کو دبائیں .
ایسا کرنے سے نالی میں رکا ہوا پیشاب نکل جائے گا .
چوتھی قسم کے قطرے
پس یا پیپ کے ہوتے ہیں . یہ قدرے گاڑھے ، رنگدار اور بدبو والے ہوتے ہیں . یہ پیپ اسی
طرح کی ہوتی ہے جیسی آپ نے پھوڑے یا زخم وغیرہ میں دیکھی ہو گی . پیپ کو انگریزی میں
پس کہتے ہیں ۔ جب جسم میں کہیں انفیکشن ہو اور جراثیم جسم کے خلیوں کو مارنے لگیں تو
ان مردہ خلیوں میں پس پیدا ہو جاتی ہے . آسان الفاظ میں یہ کہ لیں کہ اگر خصیوں یا
پیشاب کی نالی میں کوئی انفیکشن ہو یعنی بیکٹیریا حملہ آور ہوں تو نتیجے میں پس بنتی
ہے . جب یہ پس بہت زیادہ ہو جائے تو قطروں کی شکل میں باہر بھی نکلنے لگتی ہے . لہٰذا
اگر آپ کو بدبو دار قطرے آئیں تو فوراّ اپنا پیشاب اور منی ٹیسٹ کروائیں . اگر ٹیسٹ
سے پس کی تصدیق ہو جائے تو بغیر ٹائم ضایع کیے اینٹی بایوٹک کا کورس کریں
.
جہاں ایک طرف حکیم لوگوں کو ورغلاتے رہتے ہیں وہیں نو فیپ کے نام سے ایک اور گروپ بھی مصروف ہے . چلتے چلتے تھوڑی سی ان کی ایڈورٹائزمنٹ بھی ہو جائے ۔ بظاھر یہ ایسے لوگوں کا گروپ ہے جو مشت زنی کو مذہب کی بنیاد پر برا سمجھتے ہیں . یہ لوگ بھی اپنے مقصد کے حصول کے لیے سائنس کے حوالے سے ہر طرح کا جھوٹ بولنا فرض سمجھتے ہیں یا شاید ان لوگوں کی اتنی تعلیم ہی نہی ہے کہ میڈیکل سائنس کو گہرائی تک سمجھ سکیں . یہ اکثر چیزوں کی غلط اور خود ساختہ تشریح کرتے ہیں . ان کی زیادہ تر معلومات کا ماخذ گیری ولسن کی کتاب ہے جسے یہ ایک بڑے سائنسدان کے طور پر پیش کرتے ہیں . حقیقت میں گیری ولسن ایک عیسائی پادری ہے جو کچھ عرصہ ایک لائبریری میں بھی کام کرتا رہا ہے . گیری ولسن نے اپنی کتاب میں سائنس کے حوالے سے اکثر باتیں غلط لکھی ہیں . ڈاکٹرز کے نزدیک اس کی کتاب ایک لطیفے سے زیادہ کچھ نہی ہے . اسی کی کتاب کا عکس نو فیپ گروپ کی پوسٹوں میں نظر آتا ہے . مثلاّ وہ گوگل کا حوالہ دے کر بتاتے ہیں کہ سپرم کو بننے میں ساٹھ دن لگتے ہیں ۔ یہاں تک تو یہ بات درست ہے لیکن اس کا مطلب وہ یہ نکالتے ہیں کہ اگر کسی نے ایک بار مشت زنی کی تو اب وہ خالی ہو گیا اور دوبارہ منی بننے میں ساٹھ دن لگیں گے . یہ تشریح مضحکہ خیز ہے . ان بیوقوفوں کو یہ نہی معلوم کے منی کے ٹیسٹ کے لیے ڈاکٹر چار دن کا وقفہ بتاتے ہیں . اگر منی کو دوبارہ جمع ہونے میں ساٹھ دن لگتے ہیں تو چار دن بعد ہونے والے ٹیسٹ میں تو سب کے سپرم زیرو آنے چاہیں . گوگل سے میڈیکل سائنس پڑھ لینا ہی کافی نہی ہوتا , اسے سمجھنے کے لیے پانچ سال میڈیکل کالج میں بھی لگانے پڑتے ہیں . درست ہے کہ ایک سپرم کو تیار ہونے میں ساٹھ دن لگتے ہیں لیکن اس سسٹم میں ہر گھنٹے میں پانچ ملین نئے سپرم بننے کے لیے داخل ہوتے ہیں اور اسی ایک گھنٹے میں پانچ ملین وہ والے نئے سپرم تیار ہو کر سسٹم سے باہر آتے ہیں جو ساٹھ دن پہلے سسٹم میں داخل ہوئے تھے . اس طرح یہ سسٹم ہر وقت چلتا رہتا ہے . جیسے ہی کوئی مشت زنی کر کے فارغ ہوتا ہے تو اگلے ہی ایک گھنٹے میں اس کے جسم میں پانچ ملین نئے سپرم بن کر تیار ہو جاتے ہیں . کوئی بار بار مشت زنی کر کے آخر کتنے ایک سپرم نکال لے گا . قدرت کو معلوم تھا کہ لوگ مشت زنی کریں گے اسی لیے اس نے سسٹم بھی اتنا ہی تیز اور زبردست بنایا ہے .
اس نو فیپ گروپ کی ہارمون اور دوسری چیزوں سے متعلق بھی اکثر تشریحات غلط ہیں . مثلا یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ مشت زنی کرنے سے چسکا پڑ جاتا ہے وغیرہ وغیرہ ۔ دماغ کے ہارمونز کے حوالے سے ان کا لمبا چوڑا لیکچر اڈیکشن پر ہوتا ہے . وہ کہتے ہیں کہ ہر اڈیکشن بری ہوتی ہے جو غلط ہے . اچھی چیز کی اڈیکشن اچھی ہوتی ہے جیسے روٹی کھانے کی اڈیکشن . پوری دنیا میں میں چپاتی صرف برصغیر میں کھائی جاتی ہے کیونکہ ہمیں اس کی اڈیکشن ہے لیکن یہ اچھی اڈیکشن ہے . اس سے ہم صحتمند رہتے ہیں ۔ اسی طرح لوگوں کو مذہب کی اڈیکشن ہوتی ہے ، کچھ لوگوں کو صبح کی ایکسرسائز کی اڈیکشن ہوتی ہے . اگر نہ کریں تو پورا دن خراب گزرتا ہے . یہ سب اچھی اڈیکشن ہیں جس میں ہمارے دماغ کے ہارمون استعمال ہوتے ہیں . اسی طرح سیکس کی اڈیکشن بھی اچھی اڈیکشن ہے . جن لوگوں کو سیکس میں دلچسپی نہی ہوتی انھیں طرح طرح کے جسمانی اور معاشرتی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ صرف بری چیز کی اڈیکشن بری ہوتی ہے اور سیکس بری چیز نہی ۔ سچ یہ ہے کہ سیکس کے ذریعے حصول لطافت و سکون کے شدید جذبات قدرت نے ہی انسان میں رکھے ہیں . اسی طرح وہ مشت زنی کو پورن ویڈیوز سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں . پورن وڈیوز تو ابھی پچھلے پچاس سال کی ایجاد ہیں جبکہ مشت زنی تو انسان ہزاروں سالوں سے کر رہا ہے ۔ اس دور سے جب نہ تو کوئی ٹیکنالوجی تھی , نہ سازشی عیسائی اور نہ یہودی . ہزاروں سال پرانی حکمت کی کتابیں اٹھائیں تو ان میں بھی حکماء نے مشت زنی کے علاج درج کیئے ہیں ۔ اگر یہ سب پورن ویڈیوز اور صلاح الدین ایوبی کے دور میں عیسائیوں سے شروع ہوا تو قبل از مسیح میں حکیم کس مشت زنی کا علاج کرتے رہے ہیں . مشت زنی کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنا خود انسان ۔ چھے ہزار سال قبل از مسیح کے دور کی غاروں میں بنی ہوئی ایسی تصاویر ملی ہیں جس میں مشت زنی کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے . قبل از مسیح میں ہی اہل مصر دریائے نیل کے پانی میں کھڑے ہو کر عبادت کے طور پر مشت زنی کیا کرتے تھے جس کے حوالے کئی پرانی کتابوں میں موجود ہیں . لہٰذا اس نو فیپ گروپ کے کسی دعوے کے بارے میں مجھ سے نہ پوچھا کریں . وہ لوگوں کو مشت زنی سے روکنا چاہتے ہیں تو اچھی بات ہے روک لیں . مجھے ان کے کسی کام پر کوئی اعتراض نہی ہے لیکن جب وہ سائنس کی غلط تشریح کرتے ہیں تو یہ غلط ہے . انہیں چاہیے کہ جھوٹ کی آمیزش کے بغیر مکمل ایمانداری سے لوگوں کو بتائیں کہ اگر چہ رمشت زنی کا میڈیکلی کوئی خاص نقصان نہی ہے لیکن یہ ایک معاشرتی برائی ہے یا یہ کہ شادی شدہ لوگوں کے مشت زنی کرنے سے کسی حق تلفی ہوتی ہے ۔ پلیز نوجوانوں کو نفسیاتی مریض بنا بنا کرعلاج کے لیئے ہمارے پاس نہ بھجیں .
پورن ویڈیوز دیکھنا اچھی بات نہی ہے . جہاں یہ ایک معاشرتی برائی ہے وہیں انسان انہی دیکھ کر غلط فہمیاں پال لیتا ہے اور اپنے آپ کو کمزور سمجھنے لگتا ہے . لوگوں کو کسی دوسرے کے پرائیویٹ پارٹس دیکھنے سے روکنا اچھی بات ہے لیکن اس کے لیے جھوٹ کا سہارا لینا ٹھیک نہی . جب لوگ سائنس کی غلط تشریح سن کر ذہنی مریض بن جاتے ہیں اور علاج کے لیے آتے ہیں تو ڈاکٹرز کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہی ہوتا کہ انھیں سچ بتائیں کہ میڈیکل سائنس کے مطابق ان کے جسم کو کسی قسم کا کوئی نقصان نہی ہوا ہے اور یہ سب صرف ان کا وہم ہے . خدارا اپنے مشن کی تکمیل کے لیے لوگوں کو نفسیاتی مریض بنانا بند کر دیں . صاف صاف بتائیں کہ پورن دیکھنا ایک معاشرتی برائی ہے لہٰذا اس سے بچیں . آپ کی الٹی سیدھی تاویلوں سے کچھ لوگ وقتی طور پر پورن اور مشت ذنی رک جاتے ہیں اور آپ کے مشن کو کامیابی ملتی ہے لیکن آپ کا پیدا کیا ہوا خوف ان کے اندر بیٹھ جاتا ہے ۔ جلد یا بدیر وہ ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں جو علاج کے لیے ان کے ذہن سے آپ کا بٹھایا ہوا سارا ڈر نکالتا ہے اور آخر کار آپ کا مشن ناکامی سے دو چار ہو جاتا ہے ۔ کیا فائدہ ہوا ؟ اس لیے پہلے ہی صرف وہ باتیں کریں جسے اصل والی میڈیکل سائنس رد نہ کرتی ہو ۔ گیری ولسن جیسے پادریوں سے سائنس نہ سیکھیں ۔
مغربی ممالک میں نو فیپ یا ریبوٹ بنیادی طور پر عیسائی پادریوں کی تحریک ہے . عیسائیت میں سیکس کو بہت بری چیز سمجھا جاتا ہے اور پادریوں کو رہبانیت اختیار کرنی پڑتی ہے یعنی وہ ساری عمر سیکس نہی کر سکتے . انہی عیسائی راہبوں نے ویسٹ میں نو فیپ تحریک شروع کی ہوئی ہے . جہاں اس تحریک کے بہت سارے پادری حامی ہیں وہیں اس پر تنقید کرنے والے بھی بہت ہیں . اس کے برعکس اسلام میں رہبانیت کی اجازت نہی ہے اور نہ ہی سیکس کو ایک برائی سمجھا جاتا ہے . مشت زنی بھی اسی کا حصہ ہے . قرآن میں اس کی کہیں ممانعت نہی ہے . صرف ایک ضعیف حدیث ہے کہ مشت زنی کرنے والے کے ہاتھ حاملہ ہوں گے . بہت سے علما اس ضعیف حدیث کو درست نہی مانتے ۔ لگتا ہے کہ کسی سخت مزاج آدمی نے عیسائی رہبانیت سے متاثر ہو کر اسلا م میں اس حدیث کو داخل کیا ہے . میں کوئی مذہبی عالم نہی ہوں جو اس پر رائے دوں لیکن ذاتی طور پر مجھے بھی یہی بات درست لگتی ہے . بھلا کس طرح ممکن ہے کہ جو چیز معاشرے میں ہزاروں سالوں سے جاری ہو وہ اگر حرام ہو تو اس کے بارے میں قرآن میں ایک لفظ تک نہ ہو اور احادیث میں بھی صرف ایک واحد ضعیف حدیث ہو . یہ بات تو طے ہے کہ حدیث کا منکر مسلمان نہی ہو سکتا لیکن جب معاملہ ہو کسی ضعیف حدیث کا جس صحیح ہونے میں شک ہو تو سب علما اس پر متفق ہیں کہ اس کی بنیاد پر حد لاگو نہی ہوتی . بہرحال یہ میری ذاتی سوچ ہے . آپ لوگ اپنے اپنے فرقے کے علماء کی رائے کے مطابق عمل کریں ۔
دو اور غلط فہمیاں جو عام پائی جاتی ہیں وہ یہ ہیں کہ میڈیکل سائنس دیسی چیزوں سے علاج نہی کرتی اور میڈیکل سائنس میں مردانہ کمزوری کا علاج نہی ہے . حیرت ہوتی ہے یہ دیکھ کر کہ کچھ لوگ کتنے کند ذہن ہیں . اس کائنات کی کوئی چیز ، خواہ دیسی ہو یا ولائیتی ، سائنس کے دائرے سے باہر نہی ہے . کیا آپ نے کبھی نہی سنا کہ گاجر میں وٹامن اے ہوتا ہے جو آنکھوں کو فائدہ دیتا ہے ، کیلے میں پوٹاشیم ہوتا ہے ، سیب میں آئرن ہوتا ہے ، کھانے میں سلاد اور کھیرا ضرور کھانا چاہیے ، دودھ میں سب سے زیادہ وٹامن اور نمکیات ہوتے ہیں . آخر یہ سب کون بتاتا ہے . یہ سائنس کی نہی تو اور کس کی تحقیق ہے . حکیموں کو تو وٹامن کے نام بھی صحیح طرح نہی آتے انہوں نے کیا کسی لباٹری میں چیزوں کے وٹامن ڈھونڈنے ہیں ۔ کسی بھی جڑی بوٹی کا انگلش نام گوگل پر لکھ کر دیکھیں فوراّ اس کی ساری تفصیل سامنے آ جائے گی . یہ سب سائنس کی ہی تحقیق ہے اور سائنس ان سب چیزوں کو بوقت ضرورت علاج کے لیے استعمال کرتی ہے . مثال کے طور پر اس گروپ میں ایک دوائی بہت چلتی ہے جس کا نام Gonadil-F ہے . یہ ایک ایلوپیتھک میڈیسن ہے اور اس میں وٹامن ای ہے جو مچھلی کے تیل سے آتا ہے ، ایک جڑی بوٹی ٹیرابیولس کا ست ہے اور زنک اور سیلینیم ہیں جو قدرتی طور پر زمین سے نکلنے والے معدنیات ہیں . اس سے زیادہ قدرتی اور دیسی دوائی اور کیا ہو گی ۔ اکثر لوگ اس حقیقت کو نہی جانتے کہ سب سے زیادہ دیسی چیزیں تو خود میڈیکل سائنس اور ایلوپیتھک میں استمعال ہوتی ہیں . میڈیسن بنانے والی کمپنیاں ہر سال نئی ادویات کی تلاش پر اربوں کھربوں ڈالر خرچ کرتی ہیں . اگر انھیں کہیں سے بھنک بھی پڑ جائے کہ دنیا میں کوئی دیسی چیز یا جڑی بوٹی واقعی کارآمد ہے تو وہ فورا سے پیشتر اس کی تحقیق کرتے ہیں اور اگر بات صحیح ثابت ہو تو اس کی میڈیسن بنا کر مارکیٹ میں لے آتے ہیں ۔ پیسہ کمانے کا موقع کوئی نہی چھوڑتا . دنیا میں کوئی ایسی دیسی چیز نہی رہ گئی جس پر اب تک سائنسی تحقیق نہ ہوئی ہو . اگر کوئی دیسی چیز میڈیکل سائنس میں استمعال نہی ہو رہی تو یا تو وہ کام نہی کرتی ہو گی یا اس سے بہتر میڈیسن مارکیٹ میں موجود ہو گی . اگر ڈاکٹر حضرات حکیموں کی طرح فٹ پاتھ پر کپڑا بچھا کر سانڈے کا تیل بچتے نظر نہی آتے تو اس کا مطلب یہ نہی کہ ڈاکٹرز کو سانڈے کے تیل کا علم نہی ہے بلکہ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ڈاکٹرز نے تحقیق کر کے دیکھ لیا ہے کہ سانڈے کے تیل کا کوئی فائدہ نہی ہوتا
اسی طرح دوسری غلط فہمی کہ میڈیکل سائنس میں مردانہ کمزوری کا علاج نہی ہے . جس میڈیکل سائنس نے سپرم کے بننے کا طریقہ ، اس کے ہارمون اور سپرم کے اندر تک کی تحقیق کر لی ہو اور اب لیباٹری کی ٹیسٹ ٹیوب میں بھی بچے بنانے لگی ہو بھلا کس طرح ممکن ہے کہ اس سائنس نے مردانہ کمزوری پر کوئی ریسرچ نہ کی ہو . اگر آپ نے اس ساری سیریز کو صحیح طرح پڑھا ہے تو آپ کو اب تک اندازہ ہو گیا ہو گا کہ جس چیز کو معاشرے میں مردانہ کمزوری کے طور پر پیش کیا جاتا ہے وہ دراصل صرف جھوٹ کا پلندہ ہے . ایلوپیتھک جھوٹی بیماریوں کا علاج نہی کرتی ۔ یہ کام صرف حکیم کرتے ہیں ۔ سچ یہ ہے کہ زیادہ تر لوگوں کو کسی قسم کی مردانہ کمزوری نہی ہوتی . یہ محض ان کا وہم ہوتا ہے جو حکیموں کے جھوٹے پروپیگنڈے سے پیدا ہوتا ہے . ایسے مریض ہمیں قسمیں کھا کھا کر بتاتے ہں کہ انہیں مشت زنی سے بہت کمزوری ہوئی ہے ، اندر سے بالکل ختم ہو گئے ہیں ، شادی کے قابل نہی رہے اور بس ایک آدھ دن تک خود کشی کرنے والے ہیں ۔ پھر مہینے لگا کر انہیں اس سیریز میں لکھا سارا کچھ سمجھانا پڑتا ہے اور آخر کار وہ کسی دوائی کے بغیر ہی تندرست ہو جاتے ہیں ۔ خدارا یہ حکیمی باتیں سننا اور آگے پھیلانا بند کر دیں اور صرف اصل میڈیکل سائنس پڑھا کریں .
مشت زنی لڑکے بلوغت سے لے کر شادی کی عمر تک کرتے ہیں . یہ کچے ذہن کی عمر ہوتی ہے جس میں لڑکے بہت جلد دوسرے لوگوں کی باتوں کا اثر لے لیتے ہیں . جب ان پر ہر طرف سے یلغار ہوتی ہے کہ ان کے تمام مسائل کی وجہ مشت زنی ہی ہے تو وہ ایک احساس جرم میں گرفتار ہو جاتے ہیں . مشت زنی کا طوفان تو کسی طرح رکتا ہی نہیں ہے اور وہ روز بروز اس احساس جرم کے نیچے دبتے چلے جاتے ہیں . نتیجتناً وہ اس احساس جرم کی وجہ سے ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں اور تعلیم سے بھی رہ جاتے ہیں . کتنی عجیب بات ہے کہ مشت زنی تو انگلینڈ کے بچے بھی کرتے ہیں لیکن وہاں لڑیسی ریٹ بھی سو فیصد ہے اور اکثر لڑکے ڈاکٹر اور انجنیئر بھی بنتے ہیں لیکن پاکستان میں لڑکے مشت زنی کی وجہ سے اپنی تعلیم بھی مکمل نہیں کر پاتے . دراصل یہ سب دو نمبر حکیموں کی پھیلائی ہوئی جھوٹی باتوں کی وجہ سے پیدا ہونے والا احساس جرم ہے جو ان کی ترقی کے راستے مسدود کر دیتا ہے . اس لحاظ سے یہ دو نمبر حکیم قومی مجرم بھی ہیں .
اگر ان دو نمبر حکیموں کی باتوں میں کوئی سچائی ہوتی تو مشت زنی نہ کرنے والے سب ہی لڑکے بہت اعلی مقام تک پہنچتے . لیکن اگر آپ آنکھیں کھول کر جائزہ لیں تو دیکھیں گے کہ ایسا نہی ہوتا . دوسری طرف میرے ایک ڈاکٹر دوست بتا رہے تھے کہ لاہور میں ان کے میڈیکل کالج کے ہوسٹل میں باجماعت مشت زنی کی جاتی تھی . وہاں لطیفہ مشہور تھا کہ اگر کوئی فیمیل ڈاگ غلطی سے یونیورسٹی کے کسی گٹر میں گر جائے تو وہ پریگنینٹ ہو جاتی ہے ۔ آخر یہ مشت باز میڈیکل کالج اور یونیورسٹی تک کس طرح پہنچ گئے؟ میڈیکل کالج اور یونیورسٹی تک پہنچ کر اعلی ڈگریاں لینے والے یہ مشت باز دراصل وہ نوجوان ہیں جنھوں نے حکیموں کی باتوں کا کوئی اثر نہی لیا اور کسی قسم کے احساس جرم میں مبتلا نہی ہوئے
نوجوانوں کو میرا مشوره ہے کہ میری اس سیریز کو پچھلی سیریز "نوجوان نسل کے ذہنی اور جنسی مسائل" کے ساتھ ملا کر پڑھیں , انشاللہ کامیابی آپ کے قدم چومے گی . آپ کے لیے دو گولیوں کا ذکر میں پچھلی قسط میں کر چکا ہوں . اگر آپ زیر تعلیم بھی ہیں تو اس لسٹ میں ایک اور میڈیسن کا اضافہ کر لیں . اسے طالبعلموں کی دوائی بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ آپ کو نوجوانی کی روایتی سستی اور کاہلی سے لڑنے میں مدد دے گی اور یہ ہے ہومیوپیتھک کی دوائی ایسڈ فاس . اس کو کیو پوٹینسی میں لیں . دس قطرے صبح اور دس قطرے شام کو . نمکیات اور وٹامن کی طرح اس کو بھی دوائی نہ سمجھیں بلکہ یہ بھی خوراک کا حصہ ہی ہے . اس میں فاسفورس ہوتا ہے جس کی کمی سے ہمارا انرجی پیدا کرنے کا سسٹم متاثر ہوتا ہے . جسم میں سب سے زیادہ انرجی دماغ استمعال کرتا ہے اس لیے فاسفورس کی کمی سے ذہن تھکا تھکا سا رہتا ہے . اس لحاظ سے ایسڈ فاس ایک طرح کا دماغی ٹانک ہے . فاسفورس کی کمی کا مشت زنی سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ بڑھوتی کی عمر کا ٹانک ہے جو کہ اتفاق سے وہی عمر ہے جس میں مشت زنی کی جاتی ہے . لہٰذا مشت زنی والی گولیوں کے ساتھ ایسڈ فاس کا ایک قدرتی تعلق بنتا ہے
میں نے اس سلسلے کے شروع میں کہا تھا کہ اگر آپ کو مشت زنی سے متعلق مذہبی رہنمائی چاہیے تو اس سسلے کو نہ پڑھیں . لہذا اگر آپ کے دماغ میں کوئی فضول کمنٹ آ رہا ہے تو برائے مہربانی اسے اپنے پاس ہی رکھیں . ہم ڈاکٹر ہیں ، لوگ ہمارے پاس علاج کے لیے آتے ہیں فتوے لینے نہی . ایک ڈاکٹر کو اس سے کوئی غرض نہی ہوتی کہ اس کے مریض کا مذہب کیا ہے ۔ وہ سب کا علاج میڈیکل کے اصولوں کے مطابق کرتا ہے ۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ کوئی مریض اپنا مسلہ لے کر آئے اور ہم اسے اٹھا کر کلینک سے باہر پھینک دیں یا پھر صرف آپ کو خوش کرنے کے لیے اسے حکیموں کی طرح جھوٹی کہانیاں سنا سنا کر رنگ برنگی گولیاں دیں اور پیسے بٹوریں تو آپ غلطی پر ہیں . بحیثیت ڈاکٹر ہمارا فرض ہے کہ مرض کی تشخیص کریں . اگر مریض کی سب رپورٹس نارمل ہوں اور کوئی بیماری نہ ہو بلکہ صرف وہم ہو تو ڈاکٹر پر لازم ہے کہ وہ مریض کو سچ سچ بتائے کہ اسے کوئی بیماری نہی ہے اور وہ مکمل صحتمند اور نارمل ہے . پھر چاہے مریض یقین کرے یا نہ کرے یہ اس کی مرضی . ڈاکٹرز سے توقع نہ رکھیں کہ وہ محض کسی کو خوش رکھنے کے لیے جھوٹ بولیں گے . انسانی جسم الله نے بنایا ہے ڈاکٹرز نے نہی . میں نے ساری تفصیل فزیالوجی ، اناٹومی ، پتھالوجی اور اینڈوکرائنالوجی کے حوالوں کے ساتھ بتائی ہے ۔ دنیا کے لاکھوں سائنسدانوں نے مل کر پچھلے پانچ سو سال میں جو تحقیق کی ہے یہ اس کا خلاصہ ہے ۔ اس سے اختلاف اتنا آسان نہی کہ ایک میٹرک فیل بندہ اٹھ کر آرام سے کہ دے کہ یہ سب غلط ہے ۔ اگر آپ کو کسی چیز سے اختلاف ہے تو اپنی بات سائنس کے انہی حوالوں کے ساتھ بیان کریں ۔ جہلا کی طرح ہوائی نہ چھوڑیں کہ میں نے دیکھا ہے یا میں نے یوں سنا ہے وغیرہ وغیرہ ۔ قطع نظر صحیح یا غلط کے حقیقت یہی ہے کہ نوجوان نسل نہ تو صدیوں پہلے مشت زنی سے رکی تھی , نہ آج رکے گی اور نہ ہی مستقبل میں . تو پھر کیوں نہ اس حقیقت کو تسلیم کر کے اپنی نوجوان نسل کی مدد کی جائے اور انھیں غیر سائنسی اور جھوٹے پروپیگنڈے کے زیر اثر ذہنی مریض بننے سے بچا کر ترقی اور کامیابی کی راہ پر گامزن کیا جائے .
0 Comments