Urdu Tech Loop

Created By Muhammad Hammad

غیر معمولی دریافتیں: انسانی رسائی سے باہر دنیا کے راز .Extraordinary Discoveries: Secrets Beyond Human Reach

ء1887 میں انڈین آرمی کے ڈاکٹر میجر لارنس ویڈل نے سکم کے قریب ایک علاقے میں غیر معمولی طور پر بڑے پیروں کے نشان دیکھے جن کے بارے میں اس نے کہا کہ یہ کسی ایسی مخلوق کے ہیں جوعام انسانوں کی نسبت کئی گنا بڑی ہے اور جو برفانی چوٹیوں میں رہتی ہے
انیسویں صدی کے اوائل میں جب ایک انگریز مہم جو نے افریقہ میں گوریلا کو دیکھا تو حیرت سے بھونچکا رہ گیا‘ اور جب یہ اطلاع اس نے واپس آکر یورپ میں پھیلائی کہ اس نے ایک ایسا جانور دیکھا ہے جو
نے ایک ایسا جانور دیکھا ہے جو انسانوں جیسا ہی ہے اور جسے ارتقاء کی زنجیر میں انسانوں سے پہلی کڑی قرار دیا جا سکتا ہے تو یورپ بھر میں اس دریافت پر شدید حیرت کا اظہار ہوا تھا۔ حالانکہ افریقہ کے مقامی باشندے اس جانور سے صدیوں سے متعارف تھے۔
اس دریافت نے انسانوں کو جو اطلاع دی ‘ وہ یہ تھی کہ دنیا کاابھی کتنا ہی حصہ ایسا ہے جو انسانی رسائی سے باہر ہے او رجس تک پہنچنے کی انسان کو کوشش کرتے رہنے چاہئے۔
1938ء میں بحیرہ ہند میں سے کوئلاکانتھ نامی ایک مچھلی پکڑی گئی تھی جس نے دنیا بھر کے ماہرین حیاتیات کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا کیونکہ اس مچھلی کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا تھا کہ ایک کروڑبرس پہلے مچھلیوں کی یہ قسم فنا ہو چکی ہے۔ اب صرف اس کے فوسلز ہی موجود تھے۔ لیکن اس مچھلی کی دریافت نے انسانی ذہن کو ایک اورطرح سے سوچنے پر مجبور کیا۔ کچھ ایسی ہی حیرت کی صورت حال سفید گینڈے‘ دیو ہیکل پانڈے اور کوموڈو ڈریگن کی دریافت کے وقت بھی پیدا ہوئی کیونکہ یہ اسطوریاتی جانور تھے اور ان کے بارے میں عام رائے یہی تھی کہ یاتو یہ لاکھوں سال پہلے فنا ہوچکے ہیں یا پھر یہ کبھی موجود ہی نہیں تھے اور ان کے بارے میں صرف انسانی ذہنوں کی اختراع کردہ کہانیاں ہی موجود ہیں۔ یہ جانور صدیوں سے دنیا میں موجود ہونے کے باوجود انسانوں کی نظروں سے پوشیدہ رہے۔ حتی کہ ان علاقوں میں رہنے والے‘ جہاں یہ جانور دریافت ہوئے‘ مقامی لوگ بھی ان کے وجود سے باخبر نہیں تھے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انسان کو ایسی ہی مزید حیرتوں کے لیے بھی تیار رہنا چاہئے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ ایسی بہت سی مخلوقات اور بھی یہاں موجود ہوں‘ جن کے بارے میں صرف کہانیاں ہی ہمارے پاس موجود ہیں اور جنہیں ہم اسطوریاتی تصور کرتے ہیں۔ ایسی ہی ایک مخلوق برفانی دیو بھی ہے جس کے بارے میں متعدد کہانیاں مختلف قوموں کی لوک روایتوں میں موجود ہیں۔ اس مخلوق کو بڑے پیروں والا‘ الما‘ میٹی‘ کانگ می‘ میگو اور کئی اور ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس کو دیکھنے والوں کی تعداد بھی کم نہیں ہے لیکن یوں لگتا ہے کہ یہ مخلوق بہت شرمیلی ہے اور انسانوں کی نظروں میں آنے سے بچتی ہے۔ مغرب میں اس مخلوق کے حوالے سے پہلی مرتبہ1832ء میں ایک خبر ایک برطانوی مہم جو بی ایچ ہوڈسن کے ذریعے پہنچی۔وہ سلسلہ ہائے کوہ ہمالیہ میں نیپالیوں کے درمیان طویل عرصہ رہا تھا۔ وہ اپنے سفرنامے میں لکھتا ہے کہ اس نے ایک دراز قد بندر جیسا ایک شخص دیکھا جس کے جسم پر گہرے بال تھے۔ ابتدائی طور پر اس کے تجربے کے بارے میں یہ کہا گیا کہ اصل میں اس نے ہمالیہ کے پہاڑوں میں رہنے والا خاص سرخ ریچھ یا لنگور دیکھا ہوگا جو عام بندروں کی نسبت بڑے حجم کا ہوتا ہے۔ اس حوالے سے دوسری رپورٹ بھی ایک برطانوی شخص ہی کی طرف سے موصول ہوئی۔ 1887ء میں انڈین آرمی کے ڈاکٹر میجر لارنس ویڈل نے سکم کے قریب ایک علاقے میں غیر معمولی طور پر بڑے پیروں کے نشان دیکھے جن کے بارے میں اس نے کہا کہ یہ کسی ایسی مخلوق کے ہیں جوعام انسانوں کی نسبت کئی گنا بڑی ہے اور جو برفانی چوٹیوں میں رہتی ہے۔ایسی کچھ اور خبروں کے بعد یورپ میں اس مخلوق کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے کا خبط پیدا ہوگیا۔ وہاں سے مہم جوؤ ں کی کئی ٹیمیں ہمالیہ کی چوٹیوں کی طرف روانہ ہوئیں جن کا مقصد صرف یہ تھا کہ اس مخلوق کے بارے میں مزید معلومات اور شواہد اکٹھے کئے جائیں۔ بیسویں صدی کی دوسری اور تیسری دہائیوں میں ان مہمات نے برفانی دیو کے بارے میں بہت سی معلومات حاصل کیں۔ کچھ ایسی ہی معلومات ہمالیہ کی چوٹیوں کو سر کرنے کے جانے والے کوہ پیمابھی اپنے ساتھ لائے تو اس مخلوق کے بارے میں باقاعدہ لکھا جانے لگا۔ نیپال کے دیہاتیوں کے مطابق تبت کے لاما اور یٹی ایسی مخلوقات ہیں جو پرے برفانی ویرانوں میں رہتی ہیں۔ یہ ویرانے ہمالیہ کے ڈھلوانی جنگلات سے پرے سطح سمندر سے بارہ سے بیس ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہیں۔ یہ خیال کیا جاتا تھاہے کہ ان مخلوقات کے ٹھکانے پہاڑی غاروں میں ہوتے ہیں اور یہ رات کے وقت ہی اپنے ٹھکانوں سے نکلتی ہیں۔ ان نیپالی دیہاتیوں میں سے جنہوں نے برفانی دیو کو دیکھا تھا‘ وہ بتاتے ہیں کہ یہ قریباً بارہ فٹ اونچے جانور ہیں۔ یہ لنگوروں کے برعکس بالکل سیدھے چلتے ہیں اور بڑے جثے والے انسان معلوم ہوتے ہیں۔ ان کے چوڑے جسموں پر ان کے لمبے بازو دائیں بائیں جھولتے معلوم ہوتے ہیں۔ ان کے لمبے اور بڑے سر ہوتے ہیں اور یہ نیم انسان اور نیم بندر معلوم ہوتے ہیں۔ ان کی کھال بال دار ہوتے ہی جیسی کھال سرخ لومڑی کی ہوتی ہے۔ یہ زیادہ تر پہاڑی چھچھوندر وغیرہ کھاتے ہیں اور کھانے سے پہلے اپنے شکار کو ٹکڑے ٹکڑے کرتے ہیں جیسے انسان گوشت کو پہلے کاٹ لیتاہے۔ یہ تو وہ سراپا تھا جو نیپال کے دیہاتیوں نے بیان کیا تھا۔ وہاں یہ مخلوقات عجیب نہیں سمجھی جاتی تھیں۔ کیونکہ وہاں آپ کو ایسے افراد کی بڑی تعداد مل جاتی ہے جنہوں نے اس مخلوق کو دیکھا ہو۔ تبت کی لاما سے منسوب خانقاہوں میں اس مخلوق کی ممیاں موجود ہیں‘ اور ان کی کھالوں سے بنا سامان بھی موجود ہے لیکن وہ کسی کو اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ وہ اس سامان کو خانقاہ سے لے جائے کیونکہ ان کے خیال میں لیبارٹری میں لے جا کر سائنسدان ان چیزوں کی بے حرمتی کرتے ہیں۔ ان خانقاہوں تک عام لوگوں کی رسائی بھی نہیں ہے۔ سو اس کا نتیجہ یہ ہے کہ مقامی لوگوں کی ذاتی وارداتیں ہی اس مخلوق کے حوالے سے سب سے مستند حوالہ ہے۔ 1921ء میں ایک مغربی فوجی نے اس مخلوق کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور یوں اس کا پہلا مغربی عینی شاہد یورپ کو ملا۔اس فوجی کا نام کرنل سی کے ہاورڈ بری تھا۔ اس نے اپنی آنکھوں سے یٹی کو جنگل میں بھاگتے دیکھا تھا۔کرنل ہاورڈ بری ایک کوہ پیما تھا اور وہ کوہ پیماؤں کی ایک مہم کی سربراہی کررہا تھا جس کا مقصد ماؤنٹ ایورسٹ ماپنا تھا۔سطح سمندر سے قریباً سترہ ہزار فٹ کی بلندی پر ’لہاپکا پاس‘ کے قریب اس ٹیم نے ایک عجیب مخلوق دیکھی۔ یہ انسان نما جانور کافی تعداد میں تھے۔ اس مخلوق کے گزر جانے کے بعد جب کرنل ہاورڈ کی ٹیم نے اس مقام پر ان کے پیروں کے نشانات کو ناپا تو وہ عام انسانی پیر سے تین گنا بڑے تھے۔ تاہم کرنل نے اپنی ٹیم میں شامل مقامی لوگوں کی اس بات پر اعتماد نہیں کیا کہ یہ یٹی کے پیروں کے نشان ہیں۔ بلکہ وہ اسے برفانی ریچھ جیسی کوئی شے سمجھا۔تاہم اس کے بعد مغربی مہم جوؤں نے اس حوالے سے بہت سی معلومات حاصل کیں۔ سائنس دانوں پر مشتمل ایک ٹیم نے ایک غیر معمولی جثے والے انسان کو برف میں سے پودے اکھیڑ تے ہوئے دیکھا۔ اسی دور میں یہ خبر پھیلی کہ ایک یٹی نے ایک مقامی تیرہ سالہ لڑکی کو اغوا کر لیا تھا۔ بعدازاں اس لڑکی کے بارے میں کچھ معلومات حاصل نہ ہو سکیں۔ تاہم اسی خبر کو بنیاد پر ہالی وڈ نے مشہور فلم ’یٹی‘ بنائی جس نے باکس آفس پر بہت کاروبار کیا۔ 1937 میں پہلی بار یٹی کے پیروں کے نشانات کی تصویریں حاصل کی گئیں اور یہ دیکھتے ہی دیکھتے دنیا بھر کے اخباروں میں شائع ہوئیں۔ یہ تصویریں امریکہ کے ایک اخباری فوٹوگرافر فرینک سمتھ نے کھینچی تھیں۔ اس حوالے سے ایک واقعے نے بہت شہرت حاصل کی۔ اس واقعے کا یہاں بیان دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا۔ یہ واقعہ دوسری جنگ عظیم کے دوران 1942ء میں رونما ہوا جب پولینڈ کے پانچ فوجی جنہیں سائبیریا میں قید میں رکھا گیا تھا‘ جیل توڑ کر بھاگے اور پیدل سفر کرتے ہوئے انہوں نے غیرمعمولی مسافت طے کی۔ وہ منگولیا اور تبت کے راستے بھوٹان پہنچے اور وہاں سے وہ ہمالیہ کے پہاڑوں سے گزر کر انڈیا گئے۔ راستے میں پہاڑوں میں انہیں ایک عجیب واقعے سے دوچار ہونا پڑا جو انہوں نے واپسی پر سنایا تو اس واقعے کی دنیا بھر میں دھوم مچ گئی۔ کیونکہ اس واقعے نے برفانی دیو کے بارے میں اس سے پہلے بیان کئے جانے والے سراپے کی تصدیق کی۔ جبکہ ان فوجیوں کو اس بارے میں کچھ علم نہیں تھا کہ ان سے پہلے بھی کسی نے اس مخلوق یا اس کی نشانیوں کو دیکھا اور اس کا سراپا بیان کیا تھا۔ ان فوجیوں کے مطابق وہ ہمالیہ کے پہاڑوں میں سے گزر رہے تھے کہ ایک مقام پر وہ ایک درخت کے نیچے سستانے کے لیے بیٹھے تو انہیں درخت کے دوسری طرف نشیبی علاقے میں خود سے چند ہی قدم دور دو انسان نما گوریلے دکھائی دیئے۔ گوریلوں نے بھی دیکھ لیا تھا کہ کوئی یہاں درخت کے پاس موجود ہے تاہم انہوں نے جیسے اس بات کو کچھ زیادہ اہمیت نہیں دی۔ وہ کوئی توقف کئے بغیر برف کھودتے رہے۔ فوجیوں نے بتایا کہ وہ کوئی دوگھنٹے درخت کے پیچھے چھپے بیٹھے اس مخلوق کو حیرت سے دیکھتے رہے۔ فوجیوں نے بھی اپنی جگہ سے ہلنے کی کوشش نہیں کی کیونکہ وہ سمجھ سکتے تھے کہ یہ ان کے سفر کا سب سے دلچسپ تجربہ تھا‘ اس لیے وہ اس کی تمام تفصیلات کو بغور دیکھنا چاہتے تھے۔ ایسے ہی دو انسان نما گوریلوں کے ایک جوڑے سے ناروے کے دو سیاحوں کی 1948ء میں انڈیا کے علاقے سکم میں مڈبھیڑہوئی تھی۔ تاہم اس جوڑے نے سیاحوں پر حملہ کردیا۔ جس کے جواب میں سیاحوں میں سے ایک فرد نے جس کے پاس رائفل تھی‘ ہوائی فائر کئے ۔ وہ جوڑا خوف زدہ ہو کر وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا۔ ہمالیہ کا پہاڑی سلسلہ ایسا علاقہ ہے جہاں سارا سال برف گرتی ہے اور وہاں ایسے علاقوں کی کثرت ہے جہاں شاذ ہی کبھی کوئی انسان پہنچ پاتا ہے۔ ان برفانی ویرانوں میں ان انسان نما گوریلوں کے بسیر ا ہے۔ ہوسکتا ہے وہاں اس مخلوق کے علاوہ بھی کچھ اور موجود ہو جو انسانی دلچسپی کا باعث ہو اور اس کے علم میں اضافے کا مؤجب بنے۔ برفانی دیو کی کہانی کا چرچا یوں تو دنیا بھر میں تھا لیکن اس حوالے سے یا تو ذاتی وارداتیں ہی تھیں یا پھر کچھ فوٹوگراف تھے‘ جو اصل میں اس مخلوق کے پیروں کے نشانات کے تھے ‘ اور ہم سمجھ سکتے ہیں کہ یہ شواہد ایسے ٹھوس نہیں ہیں جن کی بنیاد پر کسی انوکھی بات کو ثابت کیا جا سکے۔ اس حوالے سے 1951کا سال بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس سال 8نومبر کو معروف کوہ پیما ایرک شپٹن اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ گوری شنکر پہاڑی سلسلے میں سطح سمندر سے اٹھارہ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ’من لنگ گلیشئر‘ پر تھے جب انہیں اسی مخلوق کے پیروں کے واضح نشانات دکھائی دیئے۔ یہ کسی ایسے جانور کے پیروں کے نشانات معلوم ہوتے تھے جو بہت بڑے حجم کی تھی اور جس کی پانچ انگلیاں تھیں۔ ان نشانات کا سائز لمبائی میں تیرہ انچ اور چوڑائی میں آٹھ فٹ تھا۔ اس سے انہوں نے اندازہ لگایا کہ یہ جس کسی کے بھی نشانات ہیں‘ اس مخلوق کا اپناقد آٹھ فٹ سے کم اونچا نہیں ہے۔ ان نشانات کی بھی تصویریں اتاری گئیں۔ شپٹن ایک نہایت معتبر اور معروف کوہ پیما تھا۔ اس نے جب بتایا کہ اس نے اپنی آنکھوں سے یہ نشانات دیکھے ہیں تو اس میں شک کی گنجائش کم تھی۔ ایک بار پھر اس حوالے سے ماہرین میں دلچسپی پیدا ہوئی ,
1954ء میں لندن کے روزنامہ ’ڈیلی میل‘ نے ایک مہم اس مقصد کے تحت ہمالیہ کی پہاڑوں کی طرف بھیجی کہ وہ جا کر اس کے گوشے گوشے میں کھوج کرے اور اگر اس حوالے سے کوئی ثبوت ملے تو اپنے ساتھ لائے اور دنیا کو دکھائے کہ یہ مخلوق واقعی موجود ہے۔ یا اگر وہ اس حوالے سے کچھ بھی تلاش نہ کر پائے تو واپس آکر اصل حقیقت سے لوگوں کو آگاہ کرے تاکہ اس حوالے سے کسی کے ذہن میں کوئی ابہام باقی نہ رہے۔ یہ مہم نیپال پہنچی اور وہاں مقدس خانقاہوں میں جا کر راہبوں سے اپنا مقصد بیان کیا۔انہوں نے عبادت گاہوں میں برفانی دیوؤں کی کھالیں رکھی ہوئی تھیں جن میں سے انہوں نے مہم میں شامل افراد کو چند بال توڑ کر لے جانے کی اجازت دے دی۔ تاہم اس سے زیادہ یہ مہم کوئی قابل ذکر کامیابی حاصل نہیں کر سکی۔ ان بالوں کا بعدازاں تجزیہ کیا گیا اور سائنس دان یہ شناخت کرنے میں ناکام رہے کہ یہ کس جانور کے بال تھے۔ اسی طرح کی ایک اور مہم 1957ء میں بھی برفانی دیوؤں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے روانہ ہوئی۔ وہ جب نیپال کے ایک علاقے میں پہنچی تو اس دیہات کے لوگوں نے مہم کے افراد کو بتایا کہ کچھ ہی دن پہلے یہ برفانی دیو ان کے پانچ آدمیوں کو اٹھا کر لے جا چکے ہیں۔ 1970میں برطانوی کوہ پیما ڈون ولینزنے ایک پورا دن نیپال کے پہاڑوں پر سطح سمندر سے تیرہ ہزار فٹ کی بلندی پر اس مخلوق کے آثار کی فوٹوگرافی کرتے ہوئے بتایا۔ اسی رات اس نے چاند کی روشنی میں ایک انسان نما گوریلے کو اپنے چاروں ہاتھوں پر کھڑے دیکھا۔ 1973ء میں شرپا کی ایک نوعمر لڑکی پر یٹی نے حملہ کیا جس کی خبر مہم جوؤں کے ذریعے ہی اخباروں تک پہنچی۔ وہ لڑکی پہاڑی بکریاں چرا رہی تھی جب ایک جگہ یہ مخلوق اچانک ظاہر ہوئی ۔ اس انسان نما گوریلے نے لڑکی کو دھکا دے کر گرایا اوراسے بے ہوش کر دیا۔ جب وہ ہوش میں آئی تو اس نے دیکھا کہ اس کی پانچ بکریاں مری پڑی تھیں۔ جبکہ ان کے گوشت کو ادھیڑا گیا تھا لیکن عجیب بات یہ تھی کہ اس مخلوق نے بکریو ں کو اپنے ساتھ لے جانے کی کوشش نہیں کی اور نہ ہی انہیں پوری طرح کھایا تھا۔ ہو سکتا ہے اس نے بکریوں کو اسی لیے ادھیڑا ہو کہ اسے بھوک لگی ہو لیکن وہ اس کھانہیں سکا یا اس کا جی نہیں کیا‘ اور وہ انہیں اسی حالت میں چھوڑ گیا۔ برفانی دیوؤ ں کے حوالے سے سب سے اہم ثبوت تبت کے دور دراز کے علاقوں میں موجود خانقاہوں میں ہی موجود ہیں۔ یہ ثبوت ان انسان نما گوریلوں کے جسموں کے مختلف اعضاء اور ان کی کھالیں ہیں جو ان خانقاہوں میں موجود ہیں۔سائنس دانوں کی کئی ایک ٹیمیں ان خانقاہوں تک گئی ہیں لیکن انہیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا کیونکہ وہاں موجود راہبوں نے انہیں کسی بھی مقدس شے کو ہاتھ لگانے کی اجازت نہیں دی۔ تبت چونکہ ایک متنازعہ علاقہ ہے‘ اس لیے حکومتی سطح پر بھی ان خانقاہوں پر دباؤ نہیں ڈالا جا سکتا کہ وہ سائنس دانوں سے تعاون کریں۔تاہم امید کی جا رہی ہے کہ مستقبل قریب میں یہ عقدہ بھی کھل جائے۔





Post a Comment

0 Comments

Subscribe Us