Urdu Tech Loop

Created By Muhammad Hammad

آرین: تاریخ کی بھولی بسری قوم The Aryans: A Forgotten People of History

 آرین کون تھے؟

آریائی باشندے تقریباً اڑھائی ہزار سال قبل مسیح وسط ایشیاء سے چراگاہوں کی تلاش میں نکلی اور کھلیانوں کو پامال کرتی ہوئی موجودہ ایران اور  وادی سندھی کی حدود میں وارد ہوئی اور یہاں کے قدیم مہذب قوموں دراوڑ کو جنوب کی طرف دھکیل کر خود ملک پر قبضہ کر لیا۔

سب سے پرانی کتاب جس میں ہند کے قدیم باشندوں کا حال ملتا ہے، وید کہلاتی ہے۔ اس کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اب سے چار ہزار برس پہلے ہند کے شمال مغربی حصے یعنی پنجاب میں چند ایسی قومیں آباد تھیں جن کا رنگ گورا اور قد دراز تھا۔ یہ اپنے آپ کو آریا کہتی تھیں۔ ہم ان کو آرین کہیں گے۔ ان کی نسبت ہم کو صرف اتنا معلوم ہے کہ ان کا اصل وطن ترکستان تھا۔ جہاں سے چل کر افغانستان ہوتی ہوئی ہمالیہ پہاڑ کے شمال مغربی دروں کی راہ اس ملک میں آ کر آباد ہوئیں۔ آرین لوگ رنگ کے گورے، دراز قد اور خوبصورت تھے۔ ان کی پیشانی اونچی تھی۔ یہ ان زرد رنگ کے چپٹے چہرے والوں سے بالکل جدا تھے جو مشرق کی جانب منگولیا میں رہتے تھے۔ ان لوگوں نے گائوں اور چھوٹے چھوٹے قصبے بسا رکھے تھے۔ بھیڑ، بکری اور گائے، بیل پالتے تھے۔ زمین جوتتے تھے۔ جو اور گیہوں کی فصلیں تیار کرتے تھے۔ سوت کا تنا اور کپڑا بننا جانتے تھے لیکن لوہے کے اوزار بنانا انہیں معلوم نہ تھا۔ ہاں تانبے اور ٹین کو آگ پر پگھلاتے تھے اور ان کو ملا کر بھورے رنگ کی ایک دھات بناتے تھے جسے پیتل کہتے ہیں۔ اس سے چاقو اور نیزوں کی بھالیں بناتے تھے۔ آس پاس کے بہت سے قبیلے مل کر ایک قوم کہلاتی تھی۔ ہر ایک قوم کا جدا سردار تھا جو ضرورت کے وقت اس کا سپہ سالار بنتا تھا۔ یہ قومیں بڑھتے بڑھتے اتنی بڑھ گئیں کہ وطن میں سب کی گنجائش نہ رہی۔ اس لیے کچھ قومیں جنوب مغرب کی طرف جا کر فارس میں آباد ہو گئیں۔  جس کے سبب سے اس ملک کا نام ایران ہو گیا، جو آرین ہی کی ایک صورت ہے اور چند قومیں ہند میں چلی آئیں اور مدت دراز تک پنجاب میں آباد رہیں۔ جو آرین ہند میں آ کر بسے، ہم ان کو ’’ہندی آرین‘‘ کہ سکتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ وہ لکھنا نہیں جانتے تھے اور ہمارے لیے اپنی کوئی ایسی تحریریں نہیں چھوڑ گئے جن سے ان کے مفصل اور مکمل حالات معلوم کیے جائیں، تاہم وہ دیوتائوں کی تعریف میں منتر پڑھا کرتے تھے اور اپنی اولاد کو صحت اور صفائی کے ساتھ ان منتروں کا پڑھنا سکھاتے تھے۔ منتر ایسے ازبر ہو جاتے تھے کہ ان کا بھولنا مشکل تھا۔ یہی سبب ہے کہ صدیوں تک اسی طرح منتر سینہ بہ سینہ چلے آئے۔ آخر کار لکھنے کا فن بھی ایجاد ہو گیا۔ منتر تحریر میں آ گئے۔ اب ہندوئوں کے ہاں یہ سب منتر لکھے ہوئے موجود ہیں۔ ان کو وید کہتے ہیں۔ وید اور ودیا (علم) ایک ہی بات ہے۔ وید زمانہ قدیم کے علوم کا خزانہ ہے۔ ان سے ہم کو زمانہ سلف کے ہندی آرین کا بہت کچھ حال معلوم ہوتا ہے۔ یہ لوگ مدت تک پنجاب کے دریائوں کے کنارے خوش خوش سیدھے سادھے طور پر زندگی بسر کرتے رہے۔ انہوں نے بن کاٹے، زمین صاف کی۔ اس میں کھیتی کیاری کا سلسلہ جاری کیا۔ غلے کی خوش رنگ فصلیں پیدا کیں۔ خصوصاً گیہوں اور جو کی، یہ نورانی دیوتائوں کو پوجتے تھے، جن سے ہر قسم کی مدد کی امید رکھتے تھے۔ ہند میں آنے سے پہلے جبکہ ابھی اپنے سرد شمالی وطن میں مقیم تھے۔ ان کو کھانا پکانے اور گرم رہنے کے لیے آگ کی ضرورت پڑتی تھی۔ اس لیے یہ اگنی دیوتا کی بڑی پرستش کرتے تھے لیکن جب پنجاب میں آ کر دیکھا کہ فصلوں کے لیے مینہ کی ضرورت ہے تو فضائے آسمانی کے دیوتا اِندر کی پوجا کرنے لگے اور اس کی تعریف میں منتر پڑھنے لگے۔ یہ لوگ خیال کرتے تھے کہ گرج اِندر کی آواز ہے۔ بجلی اس کا نیزہ ہے اور یہ نیزہ جب کالے بادلوں کی پیٹھ میں گھستا ہے تو ان میں سے مینہ کی دھار نکل کر کھیتوں کو سیراب کرنے لگتی ہے۔ وہ خیال کرتے تھے کہ مرنے کے بعد انسان کی روح ہوا اور آسمان سے پرے ایک نورانی طبقے میں پہنچتی ہے۔ جہاں کسی قسم کا دکھ درد نہیں ہے۔ ہر وقت روز روشن اور سدا بہار ہے۔ ہمیشہ راحت و آرام اور امن و آسائش کا دور دورہ ہے اور جہاں ہر وقت دوستوں اور عزیزوں کا قرب نصیب ہے۔ ان کی اصطلاح میں اس طبقے کے حاکم کا نام بیم تھا۔ ان کا یہ بھی خیال تھا کہ مرنے کے بعد سب لوگ یم کے سامنے پیش ہوتے ہیں اور وہ ان کے اعمال کا لیکھا کرتا ہے۔ ان کے علاوہ اور دیوتا بھی تھے، جن کو وہ پوجتے تھے۔ مثلاً وُرُن جو نیلگوں آسمان پر حکومت کرتا تھا۔ سورج یا سوتری، وایو یا ہوا، رُوّر یا گرج، اُشس یا صبح کی سنہری اور سرخ شفق۔ قدیم ہندی آرین آج کل کے ہندوئوں سے کئی باتوں میں مختلف تھے۔ ان میں ذات پات کی تمیز نہ تھی، نہ ان کے شوالے اور ٹھاکر دوارے تھے، نہ ٹھاکر اور مورتیاں تھیں۔ ان کی لڑکیاں اپنے لیے خود خاوند پسند کرتی تھیں۔ بیوائوں کی شادی ہوتی تھی۔ ان کی غذا میں غلہ اور گوشت دونوں شامل تھے۔ یہ سوم رس پیتے تھے  جو ایک قسم کی شراب تھی۔ جس سے ایک قسم کا نور آنکھوں میں آتا تھ ۔ گھوڑی کا دودھ پیتے تھے۔ اور گھوڑے کا گوشت کھاتے تھے۔ ، ا۔(ای - مارسڈن کی کتاب ’’تاریخِ ہند‘‘ سے ماخوذ)٭


Post a Comment

0 Comments

Subscribe Us