موت کی تعریف؟
یونیورسٹی آف سائوتھ کیلیفورنیا (امریکا) نے اپنی تحقیقات کا نیوز بلیٹن نشر کیا جو 30 اگست 2020ء کو منظر عام پر آیا۔ اس یونیورسٹی کا مونوگرام اس طرح بنایا گیا ہے کہ ایک مردہ جسم لیٹا ہوا ہے اور اس کے اوپر خوبصورت روشنیوں میں اسی جسم کی روح کھڑی ہے۔ بلیٹن میں کہا گیا کہ 1950ء میں موت کی تعریف یہ کی گئی تھی کہ جب دل سے خون کی گردش بند ہو جائے، دل کی دھڑکن ختم ہو جائے اور بندہ سانس لینا بند کر دے تو انسان کی موت واقع ہو جاتی ہے مگر جب وینٹی لیٹر اور سی پی آر جیسی لائف سپورٹ مشینیں آ گئیں اور سانس کو جاری رکھنے کا بندوبست کر لیا گیا اور دل کی دھڑکن کو بحال رکھنے کا عمل بھی ایجاد کر لیا گیا‘ تب بھی انسان مرنے لگ گیا۔ اب توجہ دماغ کی جانب چلی گئی؛ چنانچہ دنیا کی جدید ترین مشین EEG (Electroencephalography)کو دماغ کے ساتھ فٹ کیا گیا تو پتا چلا کہ آخری وقت پر بجلی جیسی ایک روشنی دماغ پر قبضہ کر لیتی ہے اور انسان کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ کیلیفورنیا یونیورسٹی کے نیوز بلیٹن میں کہا گیا کہ دماغی خلیات کے درمیان Electrical impulses نہ رہی یعنی بجلی کی چمک جیسی پیغام رسانی ختم ہو گئی۔ اس کا جو تسلسل تھا وہ ختم ہو گیا۔ جو قوت اسے متحرک کر رہی تھی وہ چلی گئی، سو امید باقی نہیں رہتی‘ اسی کا نام برین ڈیتھ یعنی دماغی موت ہے۔ ڈاکٹر جیمز سانٹیاگو گریسولیا نے اعلان کیا کہ
We neurologists never understand why brain death gets attacked.
:ہم لوگ جو دماغ کے خصوصی ڈاکٹرز ہیں، نہیں سمجھ سکتے کہ دماغی موت کیونکر حملہ آور ہو جاتی ہے (کہ ہم دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں)۔ ڈاکٹر ڈیانا گرینے چانڈوز نیورولوجیکل سرجن ہیں اور دماغی امراض کے ممتاز ڈاکٹر بھی ہیں، اوہائیو سٹیٹ یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ وہ کہتے ہیں: جو آغاز سے ہی اصلی اور تاریخی لاچارگی اور بے بسی ہے وہ دماغی خلیات میں روشنی کے خاتمے کا انجام ہے اور یہ آخری چیز ہے جو رخصت ہوتی ہے۔
0 Comments